The news is by your side.

’جیت نے غلطیوں پر پردہ ڈال دیا، ٹیم مینجمنٹ سمجھ سے بالاتر ‘

پاکستان کرکٹ ٹیم سنسنی نہ پھیلائے تو وہ پاکستان ٹیم ہی کیا۔ کبھی جیتا ہوا میچ ہار جائے تو کبھی ہارا ہوا میچ جیت جائے۔ شاید اسی لیے پاکستان کی ٹیم کو ایک غیر یقینی ٹیم سمجھا جاتا ہے۔

چوتھے ٹی ٹوئنٹی میں بھی ہماری کرکٹ ٹیم نے کچھ ایسا ہی کیا۔ جب سب کو یقین ہوگیا کہ اب یہ میچ پاکستان کے ہاتھ سے گیا تو اچانک حارث رؤف نے 2 وکٹیں لے کر میچ میں جان ڈال دی۔ آخری اوور میں شان مسعود نے کھلاڑی کو رن آؤٹ کر کے قومی ٹیم کو میچ ہی جتوا دیا۔ گراؤنڈ میں موجود تمام ہی لوگ حیران تھے کہ یہ ہاری ہوئی بازی پاکستان نے کیسے جیت میں بدل دی۔

بقول ہیڈ کوچ ثقلین مشتاق کے قدرت کو آج پاکستان کو جتوانا تھا۔ شاید اس لیے پاکستان چوتھا ٹی ٹوئنٹی جیت گیا۔ کیوں کہ میچ میں جتنی غلطیاں پاکستانی ٹیم نے کیں، اس کے بعد تو کام یابی ملنا بہت مشکل تھا۔ پاکستان میچ جیت گیا، سیریز 2-2 سے برابر ہو گئی۔ اب لاہور میں بقیہ 3 میچز دیکھنے میں مزہ آئے گا۔ لیکن اس جیت نے قومی ٹیم کی بہت سے خامیوں پر پردہ ڈال دیا ہے۔ ہم قومی ٹیم کی خامیوں کو اس لیے سامنے لاتے ہیں تاکہ اس میں بہتری لائی جاسکے، اپنی ٹیم یا کھلاڑیوں کی حوصلہ شکنی کرنا یا کسی میچ میں‌ ان کی کارکردگی پر صرف تنقید کا نشانہ بنانا مقصد نہیں‌ ہوتا۔ قومی ٹیم نے ایک بار پھر شان دار آغاز کیا۔ بابر رضوان نے پاور پلے میں 52 رنز اسکور کیے لیکن اس کے بعد رنز بنانے کی رفتار کو تیز نہ کرسکے۔ دونوں اوپنر اگلے 4 اوورز میں صرف 30 رنز کا اضافہ کرسکے۔ 10 اوور میں قومی ٹیم نے بغیر کسی نقصان کے 82 رنز بنائے۔ قومی ٹیم کی پہلی وکٹ بارہویں اوور میں 97 رنز پر گری۔ اتنی زبردست اوپننگ شراکت کے بعد بھی قومی ٹیم کا اسکور صرف 166 رنز تھا۔ دیگر ٹیمیں اتنی بڑی اوپننگ شراکت کے بعد 180 سے 190 کے اسکور پر جاتی ہیں لیکن ہم ابھی تک وہی روایتی کرکٹ کھیل رہے ہیں، 150 سے 160 رنز اسکور کرنے والی۔

مڈل آرڈر ایک بار پھر بڑا ٹوٹل کرنے میں ناکام رہا اور اس کی بڑٰی وجہ محمد رضوان ہیں۔ 120 گیندوں کے میچ میں 67 گیندیں تو محمد رضوان نے کھیلیں اور اسکور کیا 88 رنز۔ محمد رضوان بیسویں اوور کی دوسری گیند پر آوٹ ہوئے تو پاکستان کا اسکور صرف 152 رنز تھا، یعنی ایک اوپنر پورے بیس اوور کھیل گیا لیکن وہ ٹیم کا اسکور 200 تک نہ پہنچا سکا۔ رضوان کے بعد آصف علی بیٹنگ کے لیے آئے اور تین گیندوں پر 2 چھکے لگا دیے۔ اب آصف کو منیجمنٹ نے اتنا بعد میں کیوں بھیجا، سمجھ سے باہر ہے۔ شان مسعود جس وقت آؤٹ ہوئے، اس وقت صرف 9 گیندیں باقی تھیں، اگر آصف علی پہلے آتے تو شاید وہ زیادہ باؤنڈریز لگا سکتے تھے۔ یا تو منیجمنٹ کو آصف علی پر بھروسہ نہیں ہے یا پورا یقین ہے کہ وہ 9 گیندیں بھی نہیں کھیل سکتے۔

خوشدل شاہ کی کارکردگی تو سمجھ سے باہر ہے۔ کسی بھی صورت حال میں خوشدل کو بیٹنگ کے لیے بھیجا جائے، وہ آؤٹ ہی ہوتے ہیں۔ یہ کہیے کہ اب تو بچوں کو بھی معلوم ہوگیا ہے کہ خوشدل کو کیسے آؤٹ کرنا ہے۔ آف اسٹمپ کے باہر سلو گیند کروائی جائے، خوشدل گیند کھڑی کر دیں گے اور کیچ آؤٹ ہو کر چلتے بنیں گے۔ یقین نہ آئے تو ایشیا کپ سے لے کر اب تک خوشدل کی میدان سے واپسی کو دیکھ لیں۔ خیر اگر مگر تو بہت سے ہیں لیکن اس بات کا پورا یقین سب کو ہوگیا ہے کہ قومی ٹیم کا مڈل آرڈر مضبوط نہیں ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان قومی ٹیم کو ورلڈ کپ میں ہوگا۔ قومی ٹیم اس طرح سیریز میں تو میچز جیت سکتی ہے لیکن ورلڈ کپ میں اس کارکردگی پر جیتنا مشکل ہوجائے گا۔

ہماری ٹیم میں فنشر کی شدید کمی ہے۔ چوتھے اور پانچویں نمبر پر آسٹریلیا میں میتیھو ویڈ اور میکسویل، انگلینڈ میں معین علی اور بین اسٹوکس، بھارتی ٹیم میں سوریا کمار یادو اور ہاردک پانڈیا۔ نیوزی لینڈ میں جیمی نیشم اور کین ولیمسن، جنوبی افریقہ میں ڈیوڈ ملر اور باووما، سری لنکن ٹیم میں کرونارتنے اور ڈاسن شناکا، ویسٹ انڈین ٹیم میں جونسن چارلس اور ہیٹمائیر جیسے بیٹر ہیں جو 170 کے اسٹرائیک ریٹ سے بیٹنگ کرتے ہیں، کلین ہیٹر کے ساتھ بہترین فنشر بھی ہیں لیکن ہمارے پاس تو بس خوشدل شاہ اور آصف علی ہیں۔

پاکستان کو اگر ورلڈ کپ میں کچھ اچھا کرنا ہے تو قسمت پر بھروسے کے ساتھ اپنی کارکردگی اور منصوبہ بندی کو بھی دیکھنا ہوگا ورنہ دیگر ٹیمیں آپ کو کہاں پٹخیں گی معلوم نہیں چلے گا۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں