وارداتِ قلبی اور تپاکِ جاں کے ساتھ فوزیہ شیخ کی اس غزل میں جذبات اور کیفیات کی شدّت بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔
وابستگانِ جہانِ سخن کے لیے فوزیہ شیخ کا نام نیا نہیں اور باذوق قارئین کی اکثریت بھی ان کے طرزِ کلام کی مداح ہے۔ فوزیہ شیخ نے نظمیں بھی کہی ہیں، لیکن غزل ان کی محبوب صنفِ سخن ہے۔ ان کی تازہ غزل ملاحظہ کیجیے۔
غزل
دل پر ترے ہجراں میں قیامت کی گھڑی ہے
جیسے کسی تابوت میں اک لاش پڑی ہے
کیچڑ کا تکلف نہ کرو شہر کے لوگو
آنچل پہ تو رسوائی کی اک چھینٹ بڑی ہے
سینے سے لگو ہنس کے، رہے یاد یہ لمحہ
کھو کر ہمیں رونے کو تو اک عمر پڑی ہے
ممکن ہو تو اک بار اسے توڑ دے آ کر
برسوں ہوئے دہلیز پہ امید کھڑی ہے
کس طرح مری خاک سے نکلے گی وہ صورت
آنکھوں میں بسی ہے تو کہیں دل میں گڑی ہے
سینے میں نئی سانس اتاری ہے کسی نے
برسوں سے پڑی گرد مرے دل سے جھڑی ہے
کوشش تو بہت کی تھی کہ شیشے میں اتاروں
تصویر بھی اس شخص کی پتھر میں جڑی ہے