فوزیہ شیخ کا تعلق خوشاب سے ہے- غزل کو اپنے جذبات اور خیالات کے اظہارکا وسیلہ بنانےوالی فوزیہ شیخ نے نظمیں بھی کہی ہیں، لیکن غزل ان کی محبوب صنفِ سخن ہے- ان کاکلام باذوق قارئین کی نذر ہے-
غزل
ہے دشمنی میں لطف، نہ ہی التفات میں
ہر اک قدم کٹھن ہوا راہ ِ حیات میں
دنیا سمجھ سکی نہ کسی کو خبر ہوئی
چپکے سے ٹوٹتا ہے ستارہ جو رات میں
تم پر ہی مشتمل مری کل کائنات تھی
کچھ بھی نہیں ہے اب تو بھری کائنات میں
چنوا دیے ہیں کتنے زمانے نے اس میں دل
دیوار جو کھڑی ہوئی ہے ذات پات میں
جو پاس ہے، نہ دور ہے، بچھڑا نہ مل سکا
اس چاند کو میں ڈھونڈتی ہوں چاند رات میں
عادت سے اپنی کیا کرے مجبور ہے بہت
بولے گا جب بھی زہر ہی گھولے گا بات میں
مجھ سے جو ہجر میں ہوئیں غزلیں کمال ہیں
مقبول وہ بھی ہو رہا ہے شاعرات میں
ان کے لئے یہ زندگی کی جنگ کچھ نہیں
جو جیتنے کا حوصلہ رکھتے ہیں مات میں
تو کیا ہوا جو چھن گیا مجھ سے وہ ایک شخص
دنیا میں کوئی چیز ہے پہلے ثبات میں؟