The news is by your side.

پارس مزاری کی غزلیں

گزشتہ دو دہائی کے دوران نوجوان شعرا میں پارس مزاری نے غزل گو شاعر کے طور پر ادبی حلقوں اور باذوق قارئین کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔ان کا تعلق بہاول پور سے ہے۔ پارس مزاری کی غزلیں باذوق قارئین کی نذر ہیں۔

غزل
نہ گرے کہیں نہ ہرے ہوئے کئی سال سے
یونہی خشک پات جڑے رہے تری ڈال سے

کوئی لمس تھا جو سراپا آنکھ بنا رہا
کوئی پھول جھانکتا رہ گیا کسی شال سے

تری کائنات سے کچھ زیادہ طلب نہیں
فقط ایک موتی ہی، موتیوں بھرے تھال سے

تُو وہ ساحرہ کہ طلسم تیرا عروج پر
میں وہ آگ ہوں جو بجھے گی تیرے زوال سے

ترے موسموں کے تغیّرات عجیب ہیں
میں قبا بنانے لگا ہوں پیڑ کی چھال سے
===========================

غزل
کیا اذیت ہے مرد ہونے کی
کوئی بھی جا نہیں ہے رونے کی

دائرہ قید کی علامت ہے
چاہے انگوٹھی پہنو سونے کی

سانس پھونکی گئی بڑا احسان
چابی بھر دی گئی کھلونے کی

ایسی سردی میں شرط چادر ہے
اوڑھنے کی ہو یا بچھونے کی

بوجھ جیسا تھا جس کا تھا مجھے کیا
مجھے اجرت ملی ہے ڈھونے کی

میں جزیرے ڈبونے والا ہوں
خو نہیں کشتیاں ڈبونے کی
===========================

غزل
بھلا کنول بھی کوئی باغ میں اگاتا ہے
یہ تازہ پن مری بوسیدگی سے آتا ہے

بھلے دماغ میں ابھریں ہزار ہا چہرے
جو مرتکز ہو وہ نظریں نہیں ہٹاتا ہے

مجھے تو روٹھے ہوئے کو منانا آتا تھا
بچھڑنے والے کو کیسے منایا جاتا ہے

ہر آدمی تو نہیں رکھتا ذوقِ آزادی
ہر آدمی تو کبوتر نہیں اڑاتا ہے

وہ بھولتا نہیں بوسے شمار کرتے ہوئے
وہ جان بوجھ کے گنتی غلط بتاتا ہے

اب اس کے ہاتھ کو کاٹیں کہ چوم لیں پارس
وہ مٹی چور ہے لیکن دیے بناتا ہے

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں