‘پسماندہ ممالک میں ترقی کی راہ میں تین چیزیں حائل ہیں، ایک نیشنل ازم ، دوسرا حکومتوں کا بار بار بننا اور ٹوٹنا، تیسرا ملک کے داخلی مسائل کی وہ کثرت کہ حکم رانوں کے پاس علاقائی مسائل کے لیے فرصت ہے نہ حوصلہ۔’
مختار مسعود کی تصنیف لوحِ ایّام میں 1979 میں جو پاکستان دکھائی دیتا ہے راقم کو وہی پاکستان 2023 میں نظر آیا۔ بس اس فہرست میں قوم پرستی کے ساتھ مذہب پسندی بلکہ مذہبی احساسِ تفاخر کا اضافہ کر لیں۔ سوشل میڈیا پر پوسٹ نظر آتے ہیں کہ مجھے فخر ہے میں مسلمان پیدا ہوا۔ اعتقاد اہم ہیں، اعمال صفر۔ عبادات اہم ہیں اور اخلاق صفر۔
پاکستان کو کچھ نہیں ہو سکتا یہ اسلام کے نام پر بنا تھا۔ لیکن اسلام کو سب سے زیادہ خطرہ پاکستان میں ہی ہے۔ افکارِ تازہ سے خطرہ، روشن خیالی سے خطرہ، مذہبی اقلیتوں سے خطرہ، انگریزی اور فزکس کے پروفیسروں سے خطرہ، چینی انجینئرز سے خطرہ، سستا پھل بیچنے والوں سے خطرہ، ٹرانس جینڈرز سے خطرہ۔ وردی والوں کو بے وردی سے خطرہ اور سویلین کو فوج سے بہت ہی زیادہ خطرہ۔
فوج کا کوئی نمائندہ ٹی وی پر آ کر دہشت گردوں کے خلاف تازہ آپریشن پر بریف کر رہا ہو تو ہم سننا نہیں چاہتے، چینل بدل دیتے ہیں۔ نہ ن لیگ برداشت ہو رہی ہے، نہ پیپلز پارٹی سے کوئی امید ہے، پی ٹی آئی نے ویسے ہی مایوس کر دیا، فوج نے دل توڑ دیا۔ خدایا! میں واقعی منفی سوچ کی تشہیر نہیں چاہتا لیکن کوئی اس فصلِ ہلاکت میں سلامت بھی تو ہو۔
سلطانئ جمہور کے زمانے آئے، پاک فوج نے بھی اپنی پاکیزگی کے جوہر دکھائے۔ کبھی نیا پاکستان تعمیر ہوتا ہے تو کبھی راکھ میں دبی چنگاری کی طرح پرانا پاکستان بھڑک اٹھتا ہے، سندھ طاس کا معاہدہ اپنی توسیع یا تنسیخ چاہتا ہے، موسمیاتی تبدیلیاں نئے سیلاب کی پیش گوئی کر رہی ہیں، ڈالر نے کمر دہری کر دی ہے۔ راقم نے مطالعہ پاکستان کو جھوٹ کہنے والوں کا یہی حل نکالا کہ تاریخ کی جگہ جغرافیہ اور حالات حاضرہ پڑھانے شروع کیے۔ لیکن جب برآمدات کی جگہ بس درآمدات ہوں، ڈالر بس یو ٹیوب اور ٹک ٹاک کی کمائی کے ذریعے وطن عزیز میں آرہا ہو۔ روٹی پکانے کا چکلا بیلن بھی چائنا سے درآمد ہو رہا ہو تو بچوں کو کیا پڑھائیں۔ ایسا کرتے ہیں بچّوں کو سوال کرنے سے روک دیتے ہیں کہ بس بہت ہو گیا یہ انٹرایکٹیو کمرۂ جماعت کا کھیل۔ چلو شاباش دوبارہ سے 14 نکات کے رٹے لگائیں۔
پہلے سیاست اور سیاست دانوں کے خلاف لکھنا ایک عام رواج تھا، اب مذہب پر لکھنا اور فوج کے بارے میں چہ میگوئیاں کرنا فیشن ہے۔راقم کو بھی لکھنے کا شوق ہے لیکن میں حسن نثار نہیں بننا چاہتا۔ راقم کو بولنے کا شوق ہے لیکن میں سید مزمل حسین بھی نہیں بننا چاہوں گا۔ میں تنقید برائے تنقید کا قائل نہیں، جھوٹ میں بولنا نہیں چاہتا تو میں مطالعہ پاکستان پڑھاتے ہوئے طلبا کو کس روشن مستقبل کے خواب دکھاؤں اور کیسے؟ رواں سمسٹر میں 88 دماغوں کو سچ بول کر حب الوطنی سکھاؤں بھی تو کیسے؟