The news is by your side.

توانائی کا تحفظ اور پیسے کی بچت، کیا پاکستان اس کوشش میں کامیاب ہوگا؟

پاکستان کی حکومت نے درآمدی معدنی ایندھن کے ذریعے پیدا ہونے والی توانائی کو بچانے کے منصوبے کے تحت مارکیٹوں کو جلد بند کرنے کا حکم دیا ہے اور موثر آلات کے استعمال کو لازمی قرار دیا ہے۔ تاہم، عمل درآمد کی راہ میں بڑے چیلنجز کھڑے ہیں۔

پاکستان نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ یکم جولائی سے، توانائی کی بچت کے لئے حکومت کی زیرقیادت قومی منصوبے کے، تجارتی مراکز اور بازاروں کو رات 8 بجے بند ہوجانا چاہیے۔منسٹری آف انرجی کے تحت قائم ملک کی نیشنل انرجی ایفیشنسی اینڈ کنزرویشن اتھارٹی (این ای ای سی اے) کے ’اسٹریٹجک پلان‘ کے سرکاری عنوان سے، اس پالیسی پر پہلی بار 2022 کے وسط میں بحث کی گئی۔ بعدازاں دسمبر 2022 میں سینئر وزراء نے اس کی منظوری دی تھی۔

اس وقت، پاکستان کی وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے معدنی ایندھن کے استعمال میں کمی کو منصوبے کے فائدے کے طور پر پیش کیا تھا، جبکہ سرکاری پالیسی بریف میں “جی ایچ جی [گرین ہاؤس گیس] کے اخراج میں 35 ایم ٹی سی او ٹو ای [میٹرک ٹن آف کاربن ڈائی آکسائیڈ اکیویلینٹ] کمی کے وابستہ فائدے” کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن اہم حکومتی نمائندوں اور وزیر اعظم شہباز شریف کے ریمارکس نے پالیسی کا ایک اہم مقصد کا عندیہ دیا ہے: ایسے وقت میں جب پاکستان کی معیشت دیوالیہ پن کے دہانے پر ہے، ملک کے گھٹتے ہوۓ زرمبادلہ کے ذخائر درآمدی ایندھن پر کم خرچ ہوں۔

پاکستان کے وزیر برائے منصوبہ بندی اور ترقی، احسن اقبال، جن کی وزارت، توانائی کے تحفظ کی پالیسی کی سربراہی کر رہی ہے، نے دی تھرڈ پول کو بتایا: “ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ بڑھ رہا ہے۔ ہمیں ایک ایک ڈالر بچانا ہے اور یہ منصوبہ اسکا ایک حل ہے۔”

پاکستان کے ایندھن کے بڑھتے ہوئے اخراجات
پاکستانی حکومت کی توانائی کی لاگت کے بارے میں بے چینی درآمدی ایندھن پر اس کے بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے ہے۔ حکومت کے سالانہ اقتصادی سروے کے مطابق، جولائی 2021 سے اپریل 2022 کے دوران پاکستان کا تیل کا درآمدی بل 95.9 فیصد بڑھ کر 17.03 بلین امریکی ڈالر ہو گیا، جو پچھلے سال کی اسی مدت کے لئے 8.69 بلین امریکی ڈالر تھا۔ سروے نے حیران کن اضافے کی وجہ ” عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ… اور پاکستانی روپے کی قدر میں بے تحاشہ کمی جو تیل کو مزید مہنگا کر رہی ہے، بیرونی سیکٹر کا دباؤ بڑھا رہا ہے اور ملک کے تجارتی خسارے کو پھیلا رہا ہے۔

اس سال مئی میں پاکستان میں مہنگائی اس بلند ترین سطح پر پہنچ گئی جو 1950 کے بعد سے نہیں دیکھی گئی۔ بڑھتے ہوئے درآمدی بلوں، بلند ملکی افراط زر، اور معاشی تباہی کے خدشات کے تناظر میں توانائی کے تحفظ کا منصوبہ متعارف کرایا گیا ہے۔

حکومت نے مارکیٹ کی جلد بندش کے لئے 1 جولائی کی ڈیڈ لائن مقرر کی ہے، تاہم، باقی کارروائیوں کے لئے ٹائم فریم کا اعلان ابھی باقی ہے۔

این ای ای سی اے کے منیجنگ ڈائریکٹر سردار محظم نے دی تھرڈ پول کو بتایا، “پاکستان اس منصوبے کے تحت 15 فیصد تک توانائی بچا سکتا ہے اور اپنے بڑھتے ہوۓ درآمدی بل کو کم کر سکتا ہے۔” محظم نے مزید کہا، “حکومت اس منصوبے کے بارے میں سنجیدہ ہے اور اس پر عمل درآمد زوروں پر ہے۔”

محظم نے کہا کہ موسم گرما میں پاکستان کی بجلی کی طلب عام طور پر موسم سرما میں 12,000 میگاواٹ کے مقابلے گرمیوں کے مہینوں میں 29,000 میگاواٹ تک دگنی سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے، جس کی بڑی وجہ گرمی میں پنکھے کا استعمال ہوتا ہے۔ اس سے پہلے یہ اقدامات کافی کار آمد ہوں گے”۔

ایک طرف جب حکومت توانائی بچانے کا اقدامات کررہی ہے، اس کے عملدرآمد پر سوالات اور مارکیٹ کی مزاحمت جاری ہے، جبکہ ماہرین یہ سوال کررہے ہیں کہ حکومت معدنی ایندھن پر پاکستان کے طویل مدّتی انحصار سے متعلق کیا کررہی ہے۔

پاکستان کے صوبوں کو شامل کرنا
اگرچہ پاکستان کے توانائی کی بچت کے منصوبے کا اعلان پہلی بار چھ ماہ قبل کیا گیا تھا، لیکن اس کے نفاذ کے لیے کوئی واضح ڈیڈ لائن جاری نہیں کی گئی تھی، اور اس پر عمل درآمد وفاقی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔ مثال کے طور پر، پالیسی کے اعلان سے لے کر آج تک، بازار معمول کے اوقات کے مطابق کھلے ہوتے ہیں۔ ایک پریس کانفرنس میں یکم جولائی کی ڈیڈ لائن کا حالیہ حکومتی اعلان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ چھ ماہ قبل اعلان کردہ پالیسی اقدامات صرف دستاویزات تک ہی ہیں۔

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ ابتدائی پالیسی کے اعلان اور جولائی کی ڈیڈ لائن کے درمیان تاخیر کی وجہ توانائی کے تحفظ کے منصوبے میں تمام صوبائی حکومتوں کو شامل کرنے کا چیلنج تھا۔ انہوں نے کہا کہ “ہمارے پاس ایک پالیسی تھی، اور خاص طور پر ایک جامع پالیسی جب اسکا اطلاق ہوتا، لیکن کچھ صوبے اس میں شامل نہیں تھے اور حقیقت میں اس پالیسی کا مذاق اڑایا گیا۔”

پاکستان کے آئین میں 18ویں ترمیم کی 2010 کی منظوری کے بعد سے، قانون سازی اور مالی خود مختاری سمیت اہم اختیارات مرکزی حکومت سے صوبوں کو منتقل ہو گئے ہیں۔

“ہم نے پچھلے سال توانائی کے تحفظ کی پالیسی پر عمل درآمد کی تجویز دی تھی، جب پرویز الٰہی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ لیکن پنجاب میں زبردست مزاحمت ہوئی،‘‘ آصف نے کہا۔ پرویز الٰہی سابق وزیراعظم عمران خان کی پارٹی کے اتحادی ہیں۔ پاکستان میں ایک سیاسی بحران، جو اپریل 2022 میں عمران خان کی برطرفی کے ساتھ شروع ہوا تھا، اب بھی جاری ہے، جس میں موجودہ حکومت اور خان کی پارٹی آپس میں لڑ رہی ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ مرکزی حکومت، صوبائی حکومتوں کو توانائی کے تحفظ کے منصوبے میں کس طرح شامل کرے گی، وزیر احسن اقبال نے جواب دیا: “یہی وجہ ہے کہ ہم کابینہ کے فیصلے قومی اقتصادی کونسل میں لے گۓ ہیں۔ کونسل میں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی شامل ہیں لہٰذا اب وہ اس فیصلے میں فریق ہیں۔

انہوں نے مزید کہا، “ہم میں سے کوئی بھی اب اس راستے پر چلنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہمارے پاس صوبوں کی رضامندی ہے اور امید ہے کہ وہ درست سمت میں قدم اٹھائیں گے۔”

توانائی کے تحفظ کے منصوبے پر تنقید اور مزاحمت
این ای ای سی اے کے سردار محظم نے تھرڈ پول کو بتایا کہ لوگوں کو اپنا رویہ بدلنے کے لئے کہنا ایک چیلنج ہے۔ پاکستان میں تجارتی منڈیاں اکثر دن میں دیر سے کھلتی ہیں اور شام ڈھلے تک کھلی رہتی ہیں، جس سے حکومت کی جانب سے رات 8 بجے کی بندش کو لازمی قرار دینے کا فیصلہ تاجروں کے لئے ایک کڑوی گولی ہے۔

محظم نے کہا، “اس طرح کے اقدامات کے نفاذ کے لئے موجودہ سیاسی معیشت اور سماجی حالات کا محتاط تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔”

آل کراچی ٹریڈرز الائنس (آل کراچی تاجر اتحاد) کے چیئرمین عتیق میر نے کہا کہ مارکیٹس جلدی بند کروانا ایک “غلط اقدام” ہے۔ میر نے کہا، “ہم ایسی تجاویز کو قبول نہیں کریں گے جو تاجروں اور دکانداروں کے لئے نقصان دہ ہوں۔” جب دی تھرڈ پول نے مئی 2023 میں میر سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا تھا کہ “ان کی سخت مزاحمت کی وجہ سے” پورٹ سٹی میں اس اقدام کو ابھی تک نافذ نہیں کیا گیا۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی ایک سینئر محقق عافیہ ملک نے کہا کہ پاکستان کا توانائی کے تحفظ کا منصوبہ امید افزا ہے، لیکن گزشتہ دو دہائیوں میں بہت سے دوسرے منصوبے بھی سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا، “اصل سوال ہمیشہ سے منصوبوں پر عمل درآمد کا رہا ہے۔”

ملک نے کہا کہ حکومت کو پاکستان کے پاور سیکٹر میں گردشی قرض کے بڑے مسئلے کو حل کرنا چاہئے، جو انہوں نے بتایا کہ 15 بلین امریکی ڈالر ہے۔ یہ بجلی نہ اداکئے جانے والے بلوں اور توانائی کے شعبے میں ناقص کارکردگی جیسے بار بار آنے والے مسائل کی طرف اشارہ کرتا ہے، یہ ایک ایسی سائیکل ہے جس کے تحت بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو ادائیگی میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں ایندھن کی خریداری اور دیکھ بھال کے لئے فنڈز کی کمی ہوتی ہے، اور بالآخر بجلی کی فراہمی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور قرض کا مسئلہ بڑھ جاتا ہے۔ملک نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں فی فرد توانائی کا استعمال، دوسرے ممالک کے مقابلے میں زیادہ نہیں ہے۔

اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فار ایکوئٹیبل ڈویلپمنٹ (پی آر آئی ای ڈی) کی ایک محقق، شاہیرا طاہر نے کہا کہ اگرچہ حکومت کی توانائی کے تحفظ اور کارکردگی پر مرکوز توجہ امیدافزا ہے، لیکن یہ منصوبہ فعال طور پر متعارف نہیں کرایا گیا تھا بلکہ تب کروایا گیا “جب بحران آ چکا تھا۔ “

طاہر نے کہا، “منصوبہ 2025 تک 3 ملین ٹن تیل کے مساوی بچت کا ہدف رکھتا ہے (ایک یونٹ جو ایک ٹن خام تیل کے جلنے پر خارج ہونے والی توانائی کی مقدار کا تعین کرتا ہے)۔ تاہم، موجودہ رفتار کے ساتھ، اس کا اہداف کی بروقت تکمیل مشکل نظر آتی ہے”۔طاہر نے مزید کہا کہ طرز عمل میں تبدیلی کے لئے بنائی گئی مہمیں امید افزا دکھائی دیتی ہیں، لیکن موجودہ منصوبوں میں بجلی کی موثر پیداوار کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

طاہر نے کہا، “کوئلے پر ماحولیات اور کمیونٹیز پر پڑنے والے منفی اثرات پر بالکل بھی بات نہیں کی جاتی۔ تھر کے کوئلے کی کم کارکردگی کے باوجود (پاکستان کے تھر کے علاقے میں نکالا گیا کوئلہ)، ہم دیکھ رہے ہیں کہ نئے پاور پلانٹس کا افتتاح ہورہا ہے”۔

ماہر توانائی سعدیہ قیوم نے توانائی کے تحفظ کے منصوبے پر عمل درآمد پر شکوک کا اظہار کیا۔ “منصوبہ درست شکل اور صحیح ارادے رکھتا ہے، اصل سوال اس کے عمل درآمد پر ہے: حکام پنکھے کیسے بدلیں گے یا تعمیراتی کوڈز کیسے نافذ کریں گے؟”

انہوں نے کہا کہ اداروں میں صلاحیت کا فقدان ہے۔ “ہم توانائی کی کارکردگی کی اہمیت کو سمجھنے میں کافی تاخیر کر چکے ہیں۔”

پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں
توانائی کے تحفظ کے منصوبے پر عمل درآمد سے متعلق سوالات پوچھے جانے پر وزیر احسن اقبال نے کہا کہ یہ ایک بڑی حکمت عملی کا ایک جزو ہے۔

اقبال نے کہا، “جب آپ کا خون بہہ رہا ہوتا ہے، تو آپ کو ایمرجنسی علاج کے ساتھ ساتھ طویل مدتی تھراپی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں۔ ہمیں اپنی معیشت کی نکسیر کو مستحکم کرنے کے لئے فوری حل کی ضرورت ہے، اور یہی اس منصوبے کی وجہ ہے”۔

“دباؤ کی وجہ سے، یہ منصوبہ گزشتہ منصوبوں سے مختلف ہے۔ ڈالر کا چیلنج انتہائی قوی وجہ ہے۔ اگر ہم نے توانائی کے استعمال اور کھپت کو تبدیل نہ کیا تو یہ تباہ کن ہوگا”

توانائی کی پیداوار میں کوئلے کے استعمال سے متعلق سوال پر اقبال نے کہا: “ہم درآمدی کوئلے میں سرمایہ کاری نہیں کریں گے، اور صرف دیسی کوئلہ استعمال کریں گے۔”

جب تھرڈ پول نے مقامی طور پر پیدا ہونے والے کوئلے، خاص طور پر انتہائی آلودگی والے لگنائٹ کا مسئلہ اٹھایا تو اقبال نے جواب دیا: “ہم ان کوئلے کے پلانٹس میں الٹرا سپرکرٹیکل ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں، اس لئے ان کا اخراج کم ہے۔ ٹیکنالوجی بدل گئی ہے، ہم صاف کوئلہ کر رہے ہیں۔ کوئلے کے پلانٹس کی نئی نسل صاف ستھری ہے۔ ہم اس توانائی کو بنیادی لوڈ کے طور پر استعمال کریں گے، اور اس میں شمسی اور ہوا کی توانائی بھی شامل کریں گے۔”

جب وزیر کے ‘کلین کوئلے’ پر تبصرے کے لئے کہا گیا تو ماہر ماحولیات احمد رفیع عالم نے کہا: “یہ صاف کوئلہ کیا چیز ہے؟ یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ لائٹ سگریٹ صحت مند ہیں! کوئلے میں کچھ بھی صاف نہیں ہے۔ سینٹر آف ریسرچ فار انرجی اینڈ کلین ایئر نے 2020 میں ایک تحقیق کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ تھر کے کوئلے کے پلانٹس سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی کی وجہ سے 30,000 افراد قبل از وقت اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ کوئلہ صرف اس لئے استعمال کرنا کہ ہمارے یعنی پاکستان کے پاس ہے، کافی دلیل نہیں ہے۔ ہمارے پاس بہت سارے قابل تجدید ذرائع ہیں جیسے سورج اور شمسی بھی – قابل تجدید ذرائع جو پاکستان میں پیدا ہونے والی بجلی کی دیگر اقسام کے مقابلے میں سستے ہیں۔”

(قمر الزمان اور عاتکہ رحمان کی یہ رپورٹ دی تھرڈ پول پر شائع ہوچکی ہے جس کا لنک یہاں‌دیا جارہا ہے)

شاید آپ یہ بھی پسند کریں