ورلڈ اکنامک فورم کے تخمینے کے مطابق عالمی معیشت کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ معتدل یا انتہائی طور پر فطرت پر انحصار کرتا ہے۔ پاکستان کے نازک پہاڑی ماحولیاتی نظام میں یہ انحصار اور بھی زیادہ ہے۔ اس طرح، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور حیاتیاتی تنوع کا نقصان پاکستان کی ان پہاڑی کمیونٹیز کی بقاء اور فلاح و بہبود کے لیے سنگین خطرہ ہیں، جو اپنی گزر بسر اور معاش کے لیے فطرت پر انحصار کرتی ہیں۔
ہندوکش ہمالیہ خطہ حیاتیاتی تنوع کے نقصان، موسمیاتی تبدیلی اور آلودگی کے تین سیاروں کے بحران (اس سے مراد تین اہم باہم جڑے ہوئے مسائل ہیں جن کا اس وقت انسانیت کو سامنا ہے) میں سب سے آگے ہے۔ یہاں تک کہ اگر گلوبل وارمنگ کو 1.5-2 ڈگری سینٹی گریڈ کے عالمی ہدف کے اندر رکھا جائے (جس کا حاصول بہت حد تک ناممکن نظر آتا ہے)، تب بھی اس خطے کے آدھے گلیشیئرز (برفانی تودے) ختم ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے جس سے اس کے دریائی، زرعی اور غذائی نظام پر مستقل مضمرات رہ جائیں گے جن سے سیلاب اور دیگر آفات کا خطرہ بھی بڑھ جائے گا۔
حکومتی اور نجی دونوں شعبوں کی جانب سے ماحولیاتی سیاحت میں سرمایہ کاری کم رہی ہے، لیکن پائیدار سیاحت شمالی پاکستان میں فطرت اور کمیونٹیز دونوں کے لیے بہت زیادہ سود مند ہو سکتی ہے
غیر پائیدار معاشی سرگرمیوں اور قدرتی وسائل کے حد سے زیادہ استحصال کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن قدرتی وسائل کا بےدریغ استعمال نہیں ہونا چاہیے، اور جیسا کہ دنیا بھر میں بہت سے مقامات پر دیکھا گیا ہے، ذمہ دار ماحولیاتی سیاحت پہاڑی ماحولیاتی نظام اور کمیونٹیز دونوں کو ایک ساتھ رہنے کا زیادہ متوازن طریقہ تلاش کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ پاکستان کے پہاڑوں میں ماحولیاتی سیاحت ایسا کرنے کی بڑی صلاحیت رکھتی ہے۔
پاکستان کے پہاڑوں میں غیر حساس سیاحت
سیاحت ہندوکش ہمالیہ خطے اور بڑے پیمانے پر پاکستان کی معیشت دونوں میں ایک اہم صنعت ہے۔ 2021 میں، Covid-19 لاک ڈاؤن کی مدت کے بعد، پاکستانیوں نے گھریلو سیاحت پر تقریباً PKR 1,400 ارب (USD 8.56 ارب) خرچ کیے اور سفر اور سیاحت نے قومی معیشت میں 3.7 فیصد حصہ ڈالا۔ ہندوکش ہمالیہ خطے میں سیاحوں کی ایک بڑی تعداد دیکھنے میں آئی اور صرف تین ماہ میں تقریباً سات لاکھ مقامی اور بین الاقوامی سیاحوں نے پہاڑی علاقے گلگت بلتستان کا دورہ کیا۔
شمالی پاکستان کے پہاڑ سیاحوں کو مختلف قسم کی مہم جوئی، کھانا پکانے، ثقافتی اور جمالیاتی تجربات کا تنوع پیش کرتے ہیں، جس میں برف پوش چوٹیوں سے لے کر سرسبز و شاداب میدانوں اور خوبصورت جھیلوں تک کے مناظر کی ایک وسیع تعداد شامل ہے۔ زیادہ تر سیاحتی اور نقل و حمل کی سہولیات اور سستے ذرائع بھی اس خطے کو پاکستان کی آبادی کے ایک بڑے حصے کے لیے قابل رسائی بناتے ہیں، جہاں اوسط ماہانہ گھریلو آمدنی 150 امریکی ڈالرز کے لگ بھگ ہے۔ اور جیسے جیسے بین الاقوامی سفر کے اخراجات بہت سے لوگوں کے لیے برداشت کرنا مشکل ہوتے جا رہے ہیں، پاکستان میں گھریلو سیاحت کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یعنی سیاحت کی صنعت سرمایہ کاری کے ٹھوس مواقع فراہم کرتی دکھائی دیتی ہے۔
لیکن پاکستان کے پہاڑوں میں اب تک کی جانے والی بہت سی سرمایہ کاریوں نے مقامی ثقافت کی قدر نہیں کی، اور سیاحتی سہولیات کی تعمیر اور اس کو چلانے کے لیے ماحولیاتی اثرات کے حوالے سے لاپرواہی کی۔ اس سے ماحولیاتی مشکلات، جن سے یہ خطہ اور اس کے لوگ پہلے ہی پریشان ہیں، بڑھ گئی ہیں۔
اگرچہ اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں، لیکن شاید سب سے زیادہ قابل ذکر دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ K2 کا بیس کیمپ ہے۔ مہم جوئی کی سیاحت اور کوہ پیمائی کے دوروں میں اضافے نے کیمپ کو ایک ڈمپنگ سائٹ (زمین کا ایک ایسا ٹکڑا جہاں کچرا پھینکا جاتا ہے) میں تبدیل کر دیا ہے، جس میں مہم جوئی کا سامان، کھانے کا فضلہ اور دیگر ساز و سامان چھوڑ دیا جاتا ہے اور اس طرز عمل کی حوصلہ شکنی کے لیے کوئی روک تھام یا جرمانہ نہیں ہے۔ مستقبل میں آنے والے سیاحوں کی صحت اور حفاظت کے لیے خطرہ پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ یہ طرز عمل حیاتیاتی تنوع کے اس منظر نامے کو آلودہ کر رہا ہے جو برفانی چیتے، مارکو پولو بھیڑ اور ہمالیائی بھورے ریچھ جیسی نایاب جنگلی حیات کا مسکن ہے۔
ماحولیاتی سیاحت – پاکستان کے پہاڑوں کے لیے ایک سنہری موقع
اس کا حل بہت سادہ ہے – آب و ہوا سے مزاحم اور ماحول دوست سیاحت ان طریقوں اور پالیسیوں پر مبنی ہو جو شمولیت، اختراع اور جوابدہی کو فروغ دے۔
سیاحت کی صنعت پاکستان کے پہاڑوں میں مقامی کمیونٹیز کے لیے بے شمار اقتصادی مواقع کے ساتھ ساتھ ثقافتی تبادلے اور تعلیم کے مواقع بھی فراہم کرتی ہے۔ اب تک، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کوششوں میں خیبر پختونخوا کے چترال اور سوات کے علاقوں میں مقامی این جی اوز اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP ) کے تعاون سے ماحولیاتی گاؤں اور کیمپنگ سائٹس کی ترقی شامل ہے۔ ان کی دیکھ بھال اور انتظام صوبائی حکومت کرتی ہے اور ان کا مقصد مقامی نوجوانوں کو روزگار اور کاروبار کے مواقع فراہم کرنا ہے۔ ماحولیاتی سیاحت کو فروغ دینے کے حکومت کے ارادے کی عکاسی UNDP کے ساتھ دوسرے مرحلے میں موجودہ منصوبے کو بڑھانے کے حالیہ معاہدے کرنے جیسے اقدامات کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے۔
تاہم، پاکستان کی عوام میں ماحولیاتی طور پر حساس سیاحت کی طلب پیدا کرنے کی حکومتی کوششیں بڑی حد تک بے سود رہی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ صارفین اور حکومت دونوں کے درمیان ماحولیاتی بحرانوں کی شدت کے بارے میں تفہیم کی کمی اور پیسے کی قدر میں کمی ہے جس کا سامنا اس وقت صارفین کو بہت سے ماحولیاتی سیاحت کے تجربوں کے دوران ہوتا ہے – جہاں ان سے اکثر غیر معیاری سہولتوں کے عوض زائد پریمیم وصول کیا جاتا ہے۔
ماحولیاتی سیاحت کے لیے مثبت ماڈل (خاکہ)
پاکستان میں اب تک نجی شعبے کو ماحولیاتی سیاحت میں سرمایہ کاری کے لیے مراعات دینے کا فقدان رہا ہے۔ وطن عزیز نے ابھی تک اس قسم کی پبلک-پرائیویٹ پارٹنرشپس نہیں دیکھی ہیں جو پیرو، کینیا اور ہندوستان میں ماحولیاتی سیاحت کے خاکوں کی کامیابی کا لازمی جزو رہی ہیں اور جنہیں منافع بخش اداروں کے طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے جو ماحولیاتی تحفظات کو بھی مربوط کرتی ہیں۔
حکومت کو ان دعوؤں کی تصدیق کے لیے ماحولیاتی سیاحت کے ماہرین کے لیے ڈھانچہ تیار کرنا چاہیے۔
پاکستان کے پہاڑوں میں، اس وقت پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے چلائے جانے والے مٹھی بھر مراکز ہی موجود ہیں جو استحکام کے اقدار اور مقامی ثقافتی ورثے کے تحفظ کے ذریعے خود کو ماحولیاتی سیاحت کی تنظیموں کے طور پر مارکیٹ کرتے ہیں۔
کریم آباد، گلگت بلتستان میں آفٹو ریزورٹ ہے جس کا انتظام زمین کے استعمال کے مشترکہ خاکے کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اس خاکے کے تحت سیرگاہ کی زمین کی ملکیت مقامی برادری کے پاس رہتی ہے، اور وہ حاصل ہونے والی آمدنی میں لازمی حصہ دار ہوتی ہے۔ جب میں نے رواں موسم گرما کے شروع میں اس سیرگاہ کا دورہ کیا اور مقامی برادری کے لوگوں سے بات کی تو میں نے محسوس کیا کہ انہوں نے سیرگاہ کی سائٹ کے ارد گرد تیار کردہ بنیادی ڈھانچے سے بھی بہت فائدہ اٹھایا ہے، جیسا کہ سڑکیں اور ٹٹو ٹریکس جو اسے نہ صرف قریبی شہر سے جوڑتے ہیں، بلکہ سیرگاہ میں کھانے کی فراہمی جیسے روزگار کے مواقع بھی فراہم کرتے ہیں۔
جہاں تک آفٹو ریزورٹ کی ماحولیاتی ساکھ کا تعلق ہے، اس سیرگاہ نے پھل دار درختوں اور ان کے تحفظ کے لیے کام کیا ہے جو ایک مظبوط ماحولیاتی اور ثقافتی قدر رکھتے ہیں۔ سیرگاہ انتظامیہ اور مقامی برادری نے سماجی زرعی جنگلات کو فروغ دینے کے لیے ایک ہزار سے زائد پھل دار درخت بھی لگائے ہیں۔
اس سیرگاہ کی تیاری میں تعمیراتی ڈیزائن اور مواد کو ایک دیسی طریقہ کار کے مطابق استعمال کیا گیا ہے جس کی توثیق آغا خان ٹرسٹ فار کلچر نے کی ہے۔ تعمیر میں اخراج سے بھرپور کنکریٹ کی جگہ گھاس، مٹی، ریت اور بچائی گئی سبز لکڑی کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس سیرگاہ میں کیمیائی جراثیم کش ادویات، جو آلودگی میں کردار ادا کرتی ہیں، کے بجائے دیسی اور فطرت پر مبنی ریت اور بجری سے تیار شدہ واٹر فلٹریشن سسٹم بھی لگایا گیا ہے۔
اسی طرح کا ایک مرکز ہندوکش ہمالیہ خطہ کی مغربی جانب، چترال میں ولا ایون ہے، جو کہ چترال کا سابقہ شاہی خاندان چلا رہا ہے۔ ولا ایون کے ایک تحقیقی دورے پر میں نے سیکھا کہ اس مرکز میں کاشتکاری کے کئی پائیدار طریقوں کا استعمال کیا گیا ہے، جن میں ٹھوس فضلے کو کمپوسٹ (بوسیدہ نامیاتی مواد) میں تبدیل کرنا، جو ان کے فارم میں قدرتی کھاد کے طور پر استعمال ہوتا ہے، شامل ہے اور یہ برادری کے زیر انتظام مائیکرو ہائیڈل اور شمسی توانائی سے چلتا ہے۔گاؤں کے رہائشیوں میں سے ایک نے مجھے بتایا کہ اس سے آس پاس کے دیہاتوں کو بلاتعطل بجلی کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا جاتا ہے۔ اگرچہ فی الحال یہ ماحولیاتی سیاحت کے منصوبے کے لیے مہنگے ذرائع ہیں، لیکن اس نے پاکستان کے پہاڑوں میں پائیدار، ذمہ دار اور ماحولیاتی طور پر مزاحم سیاحت کی ایک مثال قائم کی ہے۔
کیا ضرور کیا جانا چاہیے؟
ہندوکش ہمالیہ خطے میں بڑھتے ہوئے موسمیاتی اور قدرتی بحرانوں کے اثرات اور مقامی کمیونٹیز کے فطرت پر معاشی انحصار کے ساتھ ساتھ یہ ضروری ہے کہ پاکستان کے پہاڑوں میں تمام اقتصادی سرگرمیاں پائیدار اور ذمہ دارانہ طریقے سے کی جائیں۔ پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کے لیے ایک ماحول دوست محرک کے طور پر، ماحولیاتی سیاحت ملک کی پہاڑی کمیونٹیز کو بااختیار بنا سکتی ہے۔ اس سے انکو خوراک کے عدم تحفظ، کثیر جہتی غربت، بجلی، انٹرنیٹ اور صاف پانی تک رسائی میں مدد فراہم ہوسکتی ہے جو کہ سب ہندوکش ہمالیہ خطے میں محدود ہیں۔ حکومت کو ان دعوؤں کی تصدیق کے لیے ماحولیاتی سیاحت کے ماہرین کے لیے ڈھانچہ تیار کرنا چاہیے۔
یہ حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ماحولیاتی سیاحت کی صنعت کی ترقی کے لیے سازگار ماحول پیدا کرے۔ حکومت کو ماحولیاتی سیاحت کے ماہرین کے کام کی نگرانی اور جائزے کے لیے ایک ڈھانچہ تیار کرنا چاہیے جس سے اقدامات کے ماحولیاتی اور سماجی طور پر ذمہ دار ہونے کے دعوؤں کی تصدیق ہوسکے۔
دریں اثنا، سرمایہ کاروں اور معماروں کو ماحولیاتی سیاحت کے لیے بزنس کیس (ایسی تجویز جس میں معاشی فائدہ متوقع ہو) کو تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز تک پہنچانا چاہیے۔ پاکستان میں ماحولیاتی سیاحت کی مانگ پیدا کرنے اور ملک کے پہاڑی علاقوں کی سماجی اور ماحولیاتی حساسیت کا احترام کرنے کے لیے ذمہ داری کا مساوی حصہ عوام پر بھی عائد ہوتا ہے۔ اس میں شامل ہر فرد کو یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کی پہاڑی آبادیوں کی بقاء کا انحصار فطرت پر ہے، اور آگے بڑھنے کا مستحکم راستہ ہی اس کا واحد حل ہونا چاہیے۔
حمزہ بٹ کی یہ تحریر ‘دی تھرڈ پول’ سے لی گئی ہے جس کا لنک یہاں دیا جارہا ہے