The news is by your side.

صاحب جی آپ کا نوکر ضرور ہوں مگر….

ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ کسی رضوانہ یا فاطمہ کو آئندہ کوئی مرد یا عورت اپنی دولت کے نشے میں چُور ہو کر، اپنے بااثر ہونے کے گھمنڈ میں بدترین تشدد یا قتل کرنا تو دور کی بات معمولی گزند بھی نہ پہنچا سکے۔ آج رضوانہ اور فاطمہ کے لیے آوازیں تو بلند ہورہی ہیں اور ملزمین بھی قانون کی گرفت میں ہیں، تفتیش اور عدالتی کارروائی بھی جاری ہے۔ لیکن کیا مستقبل قریب میں ایسا کچھ نہیں‌ہوگا؟

سوشل میڈیا پر شور برپا ہے، اس ظلم اور درندگی پر کون ہے جو خاموش رہا ہے، مگر یہ تو نہیں ہوگاکہ شہروں اور بالخصوص دیہات میں بسنے والے غریب اور مجبور والدین کسی پیر، گدی نشین، کسی بڑے صاحب اور بی بی جی کی خدمت کرنے، ان کے گھر کے کام نمٹانے کے لیے چند سو روپوں کے عوض اپنے لختِ جگر کو نہ چھوڑیں۔ اور اس کی بھی ضمانت نہیں ہے کہ اپنے وسیع و عریض، بیش قیمت اشیاء سے سجے ہوئے ڈرائنگ روم میں قیمتی ملبوس پر مہنگی خوشبو چھڑکے ہوئے بظاہر مہذب اور شائستہ نظر آنے والے صاحب اور بیگم صاحبہ والدین کے جانے کے بعد بے حس، ظالم اور شیطان صفت انسان نہیں بنیں گے؟ یہ واقعات نئے تو ہیں نہیں، لیکن یہ آخری بھی نہیں ہیں۔ جب تک ہمارا معاشرہ حقیقی معنوں میں قانون اور انصاف سے محروم رہے گا، ایسی دردناک کہانیاں سامنے آتی رہیں گی۔

قانون تو دور کی بات ہے یہ سب کسی برائے نام دستور اور قاعدے کے مطابق بھی نہیں طے پاتا کہ والدین کسی مجبوری کے تحت ہی سہی جب اپنے بیٹے یا بیٹی کو کوٹھی، بنگلے میں بھیجیں تو مالک سے کوئی سادہ تحریری معاہدہ کر لیں۔ جب یہ کام بڑے شہروں اور قصبات کے کسی حد تک خواندہ گھرانے بھی نہیں کرتے تو دیہات کے اَن پڑھ اور مسکین لوگ تو ایسے کسی معاہدے یا تحریری دستاویز کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ دوسری طرف تھانے میں اس کا اندراج شاید اس لیے قانونی طور پر ممکن نہیں کہ یہ چائلد لیبر کے زمرے میں آتا ہے۔ مگر کسی شکل میں یہی کر لیا جائے کہ گواہوں کے دستخط کے ساتھ ایک سادہ کاغذ پر لکھا ہو کہ فلاں نے فلاں کی اولاد کو اس کام کے لیے اور اتنی تنخواہ پر اپنے گھر میں رکھا ہے۔ لیکن یہ جرات بھی غریب آدمی کیسے کرسکتا ہے۔ اگر کسی کی نظر میں یہ احمقانہ اور جذبات سے بھری ہوئی ایک تجویز ہے تو پھر آپ کوئی فوری اور مؤثر حل بتائیں کہ آئندہ کسی رضوانہ اور فاطمہ کی ہڈیاں کوئی نہ توڑ سکے، ان کے خوابوں کو ننھی سی مٹی کی ڈھیری کے نیچے دفن نہ کرنا پڑے۔ مجھے تو یہی سمجھ آرہا ہے. ایک عام آدمی، ایک بے بس اور مجبور انسان شایدایسا ہی کچھ سوچ سکتا ہے.

لاہور میں جنرل اسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ (آئی سی یو) میں 12 سالہ رضوانہ کا علاج تو ہوجائے گا لیکن انصاف بھی ہوسکے گا۔ سرگودھا کی رضوانہ کو والدین نے اسلام آباد میں ایک جج کے گھر میں کام کرنے کے لیے ماہ وار تنخواہ پر رکھوایا تھا اور پھر وہ اس حالت میں اپنی ماں سے ملی کہ اس پر نظر پڑتے ہی جسم میں جھرجھری سی دوڑ جاتی ہے۔ اس تشدد اور ظلم کی تفصیل آپ جانتے ہی ہیں۔دوسرا واقعہ ہے صوبہ سندھ کےمشہور شہر رانی پور کی کمسن گھریلو ملازمہ فاطمہ کا۔ وہ دس سالہ معصوم بچی ایک پیر اسد شاہ کی حویلی میں عقیدت مندی کی بھینٹ چڑھ گئی۔ کہا جارہا ہے کہ اس بچی کو بدترین جسمانی تشدد کے علاوہ جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا گیا اور ایک رپورٹ جو میری نظر سے گزری اس کے مطابق امکان ہے کہ یہ سب ڈارک ویب کے لیے کیا جاتا تھا۔ یوں‌ننھی فاطمہ قبر میں اتر گئی .

اب تحریری معاہدہ، گواہوں کے دستخط، تھانے میں اندراج سب کچھ ایک طرف رکھ دیں۔ہم جن دو بچیوں کی بات کررہے ہیں وہ یقینا ان گھرانوں میں کام کررہی تھیں، جہاں ان کے علاوہ بھی بڑی عمر کے متعدد ملازم مرد اور عورتیں بھی کام کرتی تھیں۔میں کہنا یہ چاہتی ہوں کہ یہ بڑی عمر کے مرد اور خواتین جو ان گھروں میں رہتے تھے،کیا ان کو کمسن بچیوں کے ساتھ اس درندگی اور ظلم کا کچھ علم نہ تھا؟ اگر وہ اس کی اطلاع پولیس کو نہیں دے سکتے تھے، تو ان بچیوں کے والدین کو تو بتا ہی سکتے تھے۔ کیایہ کوئی بہت دور کی بات ہے کہ ان گھروں میں موجود بڑی عمر کی دیگر ملازمائیں خود بھی صاحب جی اور بیگم صاحبہ کی جھڑکیاں کھاتی، مار پیٹ سہتی اور گالیاں سنتی ہوں گی. ان کے دل میں ان جابر اور سفاک مالکان کے لیے کون سا نرم گوشہ ہوسکتا ہے، اور کیا یہ سب دیکھ کر وہ دہل نہ گئی ہوں‌گی؟مگر انھوں نے اس انسانیت سوز اور غیر قانونی عمل کو دیکھ کر بھی چپ سادھے رکھی جب کہ یہ ظلم انہی کے طبقے سے تعلق رکھنے والی بچیوں پر ہو رہا تھا۔ گھروں کے مرد ملازمین بھی یقینا اپنے دنیاوی آقا کے بااثر اور بااختیار ہونے کے خوف، ملازمت سے نکالے جانے کے ڈر سے ان معصوم بچیوں کے لیے کچھ نہ کرسکے۔ سفاکی اور درندگی کی انتہا ہوگئی، مگر ان غریب ، تنخواہ دار ملازمین میں سے کسی نے ہمت نہ کی۔ وہ اس کے خلاف کوئی ردعمل تو کیا دیتے، وہ تو معصوم بچیوں کے والدین کو خبردار کرنے کی اپنی ایک قسم کی اخلاقی ذمہ داری بھی نہیں‌پوری کرسکے. اگر ان دونوں واقعات میں دوسرے نوکروں نے ان بچیوں کے والدین کو کچھ بتایا اور وہ پھر بھی خاموش رہے تو ان کو بھی ذمہ دار تصور کیا جائے گا.

کیا یہ ملازمین اور بچیوں کے والدین بھی اس ظلم میں برابر کے شریک ہیں؟ یہ اور اس جیسے بہت سے سوال کیے جاسکتے ہیں۔ مگر شاید یہ وقت سوال کرنے اور سوچنے کا نہیں۔ اب خود بالخصوص بڑے بڑے گھروں کے ان چھوٹے چھوٹے نوکروں کو ہمت کرنا ہوگی کہ جب اپنے ساتھی محنت کش کے ساتھ ایسا کچھ ہوتا دیکھیں تو اس کے خلاف آواز اٹھائیں، ضروری ہو تو اس کی اطلاع پولیس کو دیں۔ کمسن ملازمین پر ظلم ہوتا دیکھیں تو ان کے والدین کو بتائیں۔ ایک دوسرے کی طاقت بنیں اور کسی بھی قسم کے توہین آمیز سلوک، ظلم اور بدسلوکی پر چپ نہ رہیں۔ آپ یقینا علمِ بغاوت بلند نہ کریں، مگر اپنے بچوں کی عمر کے دوسرے بچوں‌پر یا خود پر بھی کسی کوٹھی، بنگلے کے صاحب جی اور بیگم صاحبہ کو ہاتھ بھی نہ اٹھانے دیں. آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ صاحب میں آپ کا نوکر ضرور ہوں، غلام نہیں‌. مار پیٹ نہ سہیں، گالی نہ سنیں . یہ جرأت آپ کو کرنا ہو گی تبھی طاقت اور امارت کے ان نشئیوں کا نشہ ٹوٹے گا اور آپ کی عزتِ نفس اور آپ ہی کے بچے بچیاں محفوظ رہیں گے.

شاید آپ یہ بھی پسند کریں