محبوب صدیقی نے شاعری کا آغاز کیا تو تخلّص خزاں اپنایا اور محبوب خزاں کے نام سے شہرت پائی۔ ان کا ایک مشہور شعر ہے
بات یہ ہے کہ آدمی شاعر
یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
اردو شاعری میں موقع کی مناسبت سے اکثر یہ شعر سنایا جاتا ہے. محبوب خزاں نے غزل گوئی کے ساتھ نظمیں بھی کہی ہیں. یہاں ہم ان کی اردو شاعری سے ایک انتخاب پیش کررہے ہیں لیکن اس سے پہلےاس معروف شاعر کا مختصر تعارف پڑھ لیجیے.
محبوب خزاں 1930 میں یوپی کے ایک علاقہ میں پیدا ہوئے تھے۔ الہ آباد سے بی اے پاس کیا۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آئے اوریہاں سی ایس پی کا امتحان پاس کرکے لاہور میں اسسٹنٹ اکاؤنٹنٹ جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس ادارےکو کئی برس دیے اور ترقی کرکے اکاؤنٹنٹ جنرل سندھ کے عہدے تک پہنچے.ریٹائرمنٹ کے بعدمحبوب خزاں کراچی میں ہی مقیم رہے۔ ان کا انتقال 2013ء میں ہوا.
غزل
محبت کو گلے کا ہار بھی کرتے نہیں بنتا
کچھ ایسی بات ہے انکار بھی کرتے نہیں بنتا
خلوصِ ناز کی توہین بھی دیکھی نہیں جاتی
شعورِ حسن کو بیدار بھی کرتے نہیں بنتا
تجھے اب کیا کہیں اے مہرباں اپنا ہی رونا ہے
کہ ساری زندگی ایثار بھی کرتے نہیں بنتا
ستم دیکھو کہ اس بے درد سے اپنی لڑائی ہے
جسے شرمندۂ پیکار بھی کرتے نہیں بنتا
ادا، رنجیدگی، پروانگی، آنسو بھری آنکھیں
اب اتنی سادگی کیا پیار بھی کرتے نہیں بنتا
جوانی مہربانی، حسن بھی اچھی مصیبت ہے
اسے اچھا ،اسے بیمار بھی کرتے نہیں بنتا
بھنور سے جی بھی گھبراتا ہے لیکن کیا کیا جائے
طوافِ موج کم رفتار بھی کرتے نہیں بنتا
اسی دل کو بھری دنیا کے جھگڑے جھیلنے ٹھہرے
یہی دل جس کو دنیا دار بھی کرتے نہیں بنتا
جلاتی ہے دلوں کو سرد مہری بھی زمانے کی
سوالِ گرمیٔ بازار بھی کرتے نہیں بنتا
خزاںؔ ان کی توجہ ایسی نا ممکن نہیں لیکن
ذرا سی بات پر اصرار بھی کرتے نہیں بنتا