The news is by your side.

صحرا نشینوں کی تاریخ

تاریخ اسلام پر ان گنت کتابیں شائع کی جا چکی ہیں، لیکن وقت کی دھول اور جانبداری کی گرد تاریخ کو دھندلا دیتی ہے۔ نتیجتاً معاملات اور حالات کو سمجھنے کی کوشش میں ایک عام قاری مزید بھٹک جاتا ہے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ راقم نے کو کیا سوجھی کہ یوٹیوب کے اس تیز رفتار زمانے میں اسلامی تاریخ کا از سر نو مطالعہ کرنے بیٹھ جائے ۔ اس کی ایک وجہ تو ہمارے اردگرد موجود وہ لبرل دانشور ہیں جن کو لگتا ہے کہ مسلمانوں کے زوال کا باعث مسلم قوم کی عظمت رفتہ کے وہ غیر ضروری قصیدے ہیں جن سے نصابی کتب اس قدر اٹی پڑی ہیں کہ طالبعلم کی آنکھیں چکا چوند ہو جاتی ہیں اور وہ تاریخ کو منطق کی بجائے تقدس کے عدسے سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ راقم کا تعلق بھی اسلامی تاریخ کی سحر طرازی میں جکڑی اسی نسل سے ہے۔ دوسری وجہ کچھ سوالات تھے جو عرصہ دراز سے راقم ذہن میں تھے ۔

یہی مناسب سمجھا کہ ادھر ادھر سے ٹکروں میں پڑھنے سے بہتر ہے کہ کسی ایک مستند کتاب کا مطالعہ کر لیا جائے۔ لہذا مشہور مصنف و قانون دان سید امیر علی کی تصنیف ‘ تاریخ اسلام’ کا انتخاب کیا ۔ کتاب ھذا دراصل پاکستان میں سب سے بڑے مقابلے کے امتحان کے نصاب کے لیے تجویز کردہ کتب کا حصہ رہی ہے اور غالباً ابھی بھی ہے۔ سی ایس ایس کے لیے مرتب کردہ فہرست میں شامل ہونا ہی اس کے نسبتاً غیر جانبدار ہونے کی ایک دلیل ہے۔

ان امتحانات کا مقصد میرٹ کی بنیاد پر افسر شاہی کو منتخب کرنا ہوتا ہے اور قومی ہم آہنگی کا تقاضا ہے کہ امیدواروں کو ایسی کتب کے مطالعہ کا مشورہ دیا جائے جو ممکنہ حد تک حقائق اور خالصتاً تحقیقات کی حامل ہوں۔

اسلامی تاریخ سے راقم کے تمام سوالات بنیادی نوعیت کے ہیں، ہو سکتا ہے کہ اس سے آپ پر میری تعلیمی پسماندگی عیاں ہو جائے لیکن پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتب میں خلافت راشدہ کے فوراً بعد واقعہ کربلا ملتا ہے ۔ اس سانحے کے فوراً بعد کیا ہوا؟ خلافت کس کو ملی؟ پھر یہ کہ اگر خلافت راشدہ میں دارلخلافہ مدینہ تھا تو شام اور عراق میں کیسے منتقل ہوا؟ اسلام میں اختلافات کا آغاز کیسے ہوا ؟ عنان خلافت عباسیوں سے فاطمیوں اور پھر سلطنت عثمانیہ تک کیونکر پہنچا ؟

1898 میں شائع ہونے والی اس کتاب کے مصنف برطانیہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد حکومت انگلیشیہ میں ایک جج کے فرائض سر انجام دیتے رہے ۔ سید امیر علی نے حتی المقدور کوشش کی ہے کہ اسلامی تاریخ کا یہ بیانیہ صرف جنگی معرکوں یا حق وباطل کے نبردآزما ہونے کی داستان نہ ہو ، بلکہ مسلمانوں کی معاشی ، معاشرتی ، تعلیمی اور سائنسی ترقی کا سیر حاصل تذکرہ بھی پڑھنے کو ملے۔

مثال کے طور پر خوشگوار حیرت ہوئی جب پتا چلتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنی فتوحات کے ابتدائی دور میں علم فلکیات میں ملکہ حاصل کیا، دنیا کی پہلی رصد گاہیں بنائی کیونکہ اسلام جب جزیرہ نما عرب سے نکل کر مشرق میں براعظم ایشیا اور مغرب میں افریقہ کی طرف پھیلا تو سب سے پہلا دینی مسئلہ تھا شعائر اسلام کی درست اور بروقت ادائیگی کے لیے قبلہ کا تعین۔ یہی وجہ ہے کہ ستاروں کے رخ اور چاند کی بدلتی ساخت پر تحقیق کی گئی ۔

راقم کے نزدیک اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی اس کا اختصار ہے، لیکن یہ اختصار اس وقت قاری کے لیے مصیبت بن جاتا ہے جب ہر جملہ ایک کہانی ہو، ہر فقرہ ایک نئی بات۔ بعض صفحات میں حقائق اس قدر افراط میں موجود ہیں کہ پڑھتے پڑھتے لگنے لگتا ہے کہ آپ باقاعدہ ڈور لگا رہے ہیں ، یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ آپ کا سانس پھولنے لگا ہے، اور آپ بھاگتے جا رہے ہیں ۔ دل کی دھڑکن تیز ہو رہی ہے معلومات کا ایک خزانہ ہے کہ آپ پر الٹا دیا گیا ، جتنا لوٹ سکو ، لوٹ لو۔

تاریخ کو سمجھنے کی لگن بھی ہے ،خود سے وعدہ بھی ہے کہ پڑھ کر دم لینا ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں