پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی ہم آہنگی کی وفاقی وزیر کے طور پر اپنے 17 ماہ کے دوران، شیری رحمٰان نے کئی پرجوش منصوبوں کی نگرانی کی جن کا مقصد ملک کی موسمیاتی تبدیلی کے خلاف لچک کو بڑھانا تھا۔ شیری رحمان نے اپنے وزارتی دور کے دوران، جو کہ اپریل 2022 سے اگست 2023 تک تھا، کوپ 27 میں شرکت کی اور بطور جی 77 اور چینی بلاک کی رکن ایک بین الاقوامی نقصان اور تباہی فنڈ کے قیام کے لئے کوششیں کیں۔
پاکستان کو اپنی تاریخ کے مہلک ترین سیلابوں میں سے ایک کا سامنا بھی رحمان کے دور وزارت میں کرنا پڑا، جس سے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے ملک کو دوچار خطرات سامنے آئے۔ فی الوقت، جب تک کہ اگلی منتخب حکومت اقتدار سنبھال نہیں لیتی اقتدار کی باگ ڈور عبوری نگراں حکومت کے پاس ہے، اور اس دوران موسمیاتی لچک کے پرعزم منصوبوں کو آگے بڑھانے کی پاکستان کی صلاحیت پر ماہرین گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ یہاں، شیری رحمان اپنے خیالات کا اظہار کرتی ہیں کہ پاکستان کے لئے آگے کیا ہوگا کیونکہ اسے موسمیاتی غیر یقینی مستقبل کا سامنا ہے۔
دی تھرڈ پول: ایسا لگتا ہے کہ پاکستان لگاتار بحرانوں کی لپیٹ میں ہے – کیا ملک موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے تیار ہے؟
شیری رحمان: موسمیاتی تبدیلی پاکستان میں سب سے کم وسائل اور کم پاور والے مسائل میں سے ایک رہا ہے، حالانکہ یہ ملک کراس سیکٹرل آب و ہوا، آلودگی اور ماحولیاتی خطرات کا پوسٹر چائلڈ بن چکا ہے۔ پاکستان ایک وقت میں متعدد موسمیاتی بحرانوں سے گزر رہا ہے، اس لئے کوئی ایک مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی جادو کی گولی ہے جو راتوں رات معاملات ٹھیک کر دے۔
تاہم، ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کو ایک سے زائد طریقوں سے موسمیاتی تناؤ کی ایک مشکل دہائی کا سامنا ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہمیں جس سطح کے اثرات کا سامنا ہے، اس کے پیش نظر، لچک پیدا کرنا ہماری بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے ایک ترجیح بننی جا رہی ہے۔ ضروری ہے کہ پاکستان اور عالمی پالیسی سازی، موافقت کے ساتھ سوتیلی اولاد جیسا سلوک ختم کرے۔ اگر ملک کو بڑھتی ہوئی گرمی اور اس سے متعلقہ جھٹکوں سے بچانا ہے تو اسے قومی ایمرجنسی کے تحت فعال فنانسنگ اور صلاحیت جیسے وسائل کی ضرورت ہے۔
دی تھرڈ پول: ماحولیاتی مسئلے کی ایسی کیا ایک مثال ہے جسے آپ کے نزدیک سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا ہے؟
شیری رحمان: پاکستان کے فرنٹ لائن بحران پانی اور خوراک کے حوالے سے ہیں۔ پانی پاکستان کی انسانی، سماجی اور قومی سلامتی کے لئے اہم ہے۔ واحد بیسن یعنی دریائے سندھ کے سسٹم پر انحصار دیکھتے ہوئے میری نظر میں اسے کم اہمیت دی گئی ہے۔موسمیاتی حل بہت زیادہ بکھرے ہوئے ہیں، خاص طور سے وفاقی سطح پر، اور ضرورت کے مطابق تبدیلی لانے کے لئے کم کارآمد ہیں۔
سب سے پہلے، واٹر ریسورس منسٹری کو اپنی آبی پالیسی پر عمل درآمد شروع کرنے اور طویل المدتی بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو ترجیح دینے سے کہیں زیادہ کام کرنے کے لئے اپنی صلاحیت، رسائی اور رابطہ کاری کو جدید بنانے کی ضرورت ہے۔ ہر صوبے میں رین ہارویسٹنگ کے قابل عمل منصوبے شروع کئے جائیں اور پنجاب اور سندھ میں نہروں کے رساؤ کو بند کیا جائے۔ سیلاب کی موافقت اور ویٹ لینڈ ریچارج کے لئے متعدد مربوط، کمیونٹی پر مبنی حل کی ضرورت ہوتی ہے۔ بشمول کمیونٹی تالاب کے، مقامی حل پر مبنی ایسے بہت سے ایکشن مینیو، لیونگ انڈس انیشیٹو پروجیکٹ میں دستیاب ہیں۔
دوم، پلاننگ منسٹری کو پانی کی موافقت کو اپنے فریم ورک میں شامل کرنے کی ضرورت ہے جسے وہ ترقی اور وسائل کی تقسیم کے لئے استعمال کرتی ہے، اور ضروری ہے کہ نوآبادیاتی دور کے بنیادی ڈھانچے کو پانی ذخیرہ کرنے یا سیلاب کو روکنے کا واحد راستہ نہ سمجھا جائے۔
تیسرا، فوڈ سیکیورٹی منسٹری کو اپنے کلائمیٹ اسمارٹ ایگریکلچر سلوشنز کو بہتر بنانے اور صوبوں میں فصلوں کی آبپاشی کے لئے استعداد اور مقامی حل کے اشتراک سے لچکدار وسیلے بنانے کی ضرورت ہے۔ زراعت پاکستان میں پانی کا سب سے بڑا صارف ہے، خاص طور پر چاول اور گنے جیسی پیاسی فصلیں۔ نہ صرف پائلٹ پراجیکٹس بلکہ جن کو بڑھایا جا سکتا ہے ایسے پائیدار آبپاشی کے ماڈلز کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، جبکہ خشک سالی سے بچنے والے بیج اور نئی فصلیں انڈس ڈیلٹا میں متعارف کروائی جائیں، جو کہ تیزی سے زیرزمین پانی اور مقامی معیشت کو ختم کررہی ہے۔
انتہائی یا سبسڈی والے شمسی ٹیوب ویل کے استعمال کو فروغ دینا بھی پانی کی کمی کے توازن میں مدد نہیں کر رہا ہے، کیونکہ زیادہ استعمال اور سائیکلیکل ری چارج نہ ہونے کی وجہ سے زیر زمین پانی کا زیادہ تر حصہ خشک ہو کر ایک محدود وسائل میں تبدیل ہو گیا ہے۔ ٹیوب ویلوں کا زیادہ استعمال تمام آبی ذخائر کو ختم کر رہا ہے، جبکہ آبادی میں بے دریغ اضافہ انڈس بیسن میں دستیاب پانی کے وسائل پر دباؤ بڑھا رہا ہے۔ سندھ کے آبی ذخائر میں میٹھا پانی نہیں بچا جب کہ پنجاب میں تیزی سے پانی ختم ہو رہا ہے۔
چوتھا، صوبوں کو جائزہ لینے، پالیسی فریم ورک بنانے، اور قانونی طور پر فلڈ زوننگ، پانی کے تحفظ، اور میونسپل مینجمنٹ کے نفاز کرنے کی ضرورت ہے۔ سندھ نے 2023 میں اپنی واٹر پالیسی بنائی، لیکن اپنے بڑھتے ہوئے شہری علاقوں کے لئے، اسے مسابقتی اور غیر مربوط میونسپل اور زمین کے استعمال کی ایجنسیوں کے بیچ واٹر گورننس کو بہتر بنانے کے پیچیدہ نقطوں کو جوڑنا ہوگا۔ پانی، صفائی ستھرائی اور صحت کے شعبوں میں بڑی سرمایہ کاری سے شہری سیلاب کے اثرات کو سنبھالنے میں مدد مل سکتی ہے، یہ ایک ایسا شعبہ ہے جہاں بین الاقوامی تعاون مددگار ہوسکتا ہے۔ گندے پانی کی صفائی اور کھارے پانی کو صاف کرنے کا مطلب سرمائے کا استعمال ہے، لیکن پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ انویسٹمنٹ ماڈلز کے تحت شہر اسے آؤٹ سورس کرسکتے ہیں۔ پہاڑی علاقوں اور بحران زدہ ڈیلٹا علاقوں پر مختلف حل لاگو ہوں گے۔ یہ، بشمول ٹیکنالوجی پر مبنی حل، نیشنل اڈاپٹیشن پلان میں شناخت اور ترتیب دیے گئے ہیں۔
پانچواں، فطرت پر مبنی حل جہاں بھی ممکن ہو لاگو کئے جائیں۔ مینگروو ایکو سسٹم اور ویٹ لینڈ ریچارج پروجیکٹس سیلاب کے لئے فطرت پر مبنی بفر بنا سکتے ہیں۔ جہاں سبزکاری کے بجٹ میں کٹوتی ہوئی ہے، وہیں صوبے موجودہ کاربن سنکس سے رقم کما سکتے ہیں، جیسا کہ سندھ نے اپنے مینگروو کے احاطہ میں اضافہ کرنے کے لئے کیا ہے۔ چاہے پہاڑی جنگلات ہوں یا ڈیلٹا مینگرووز، کاربن منڈیوں میں تجارت کا کچھ فیصد جنگلات کے احاطے بڑھانے کے لئے لیکویڈیٹی پیدا کر سکتا ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ ریچارج پاکستان کو 77 ملین امریکی ڈالر کی کلائمیٹ گرانٹ مل گئی ہے، لیکن ایک بار جب اسے صوبوں میں ایک ایک پروجیکٹ میں پھیلا دیا جائے گا، تو یہ مکمّل بیسن اپ گریڈیشن کے لئے کافی نہیں ہوگا۔
ہر صوبے اور وفاقی علاقے میں جنگلات ہیں جنہیں بچانے کی ضرورت ہے، تاکہ موسمیاتی حل، اخراج میں کمی، اور پانی کے انتظام کے لئے کارآمد ہوں۔ ملک بھر میں سیلاب اور پانی کے انتظام کے اقدامات ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ دریا کے کنارے کوئی ہوٹل نہیں؛ سبز علاقوں میں کوئی شاہراہ نہیں؛ کیونکہ ماحول تنہا خراب نہیں ہوتا۔ جب حیاتیاتی تنوع نقصان کی خطرناک حد تک پہنچ جاتا ہے، تو وہویٹ لینڈز اور ندیوں کو بھی ساتھ لے جاتا ہے۔
آخر میں، بڑے عزائم اپنی جگہ لیکن پاکستان کے شہریوں کو پانی بچانے کی ضرورت ہے۔ فی الوقت، ملک میں فی کس استعمال بالکل غیر پائیدار ہے۔ زیادہ گرمی اور آبادی میں اضافے کے تناظر میں، پانی کی طلب میں تقریباً 60 فیصد اضافہ متوقع ہے، خاص طور پر گھریلو اور صنعتی شعبوں میں۔ اس وقت، ہمارے پاس دنیا میں فی کس پانی کا استعمال بلند ترین سطح پر ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق، 2017 تک پاکستان کی فی کس سالانہ پانی کی دستیابی 1,017 کیوبک میٹر تھی، جو حد قلّت 1,000 کیوبک میٹر کے خطرناک حد تک قریب ہے۔ 2023 میں، کئی شہری علاقوں سے خطرناک خسارے کی رپورٹس آئی ہیں جو غیر رسمی طور پر قیمتوں کی تقسیم کی گھناؤنی سیاست کی وجہ سے بڑھ گئے ہیں
دی تھرڈ پول: آپ نے جو منصوبے شروع کئے یا جن پر کام کیا ان میں سے کون سے خاص طور پر قابل ذکر ہیں؟ آپ ان کا کیا مستقبل دیکھتی ہیں؟
شیری رحمان: منسٹری آف کلائمیٹ چینج کا نیشنل اڈاپٹیشن پلان (این اے پی) پاکستان کے سب سے زیادہ کمزور شعبوں پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لئے ایک اہم، درمیانی مدت کا راستہ ہے۔
منصوبے کی طرف سے ایسے آٹھ شعبوں کی نشاندہی ایک اہم سنگ میل ہے، کیونکہ یہ تخفیف کی ایک جامع حکمت عملی کی تشکیل میں مدد کرتی ہے۔ ان آٹھ شعبوں میں زراعت، آبی وسائل، صحت، آفات کی تیاری، حیاتیاتی تنوع اور اربن ریزیلینس (شہری لچک) شامل ہیں۔ منصوبے کا فوکس یہ شعبے ہیں اور اگر عملدرآمد کرنے والے صوبے اس کی پیروی کریں تو منصوبے میں ان علاقوں کے لئے وسائل مختص کرنے کو ترجیح دی جائے گی جن پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر، آفات کی تیاری، منصوبہ بندی اور سماجی تحفظ۔
نیشنل اڈاپٹیشن پلان ایک حساس منصوبہ ہے جو دیہی اور شہری غریبوں (خاص طور پر خواتین اور بچوں) کی بڑھتی ہوئی ضروریات، نوجوانوں کے گروہ جو رویے میں تبدیلی کے لئے اہم ہیں، اور شہری برادریوں جن کو غیرضروری نقل مکانی کے نئے چیلنج کا سامنا ہے کو سامنے رکھتے ہوئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ موافقت کے لئے پہاڑ تا ڈیلٹا منصوبہ بھی زراعت کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ خوراک کی افزائش، رینج لینڈز کا انتظام اور مویشیوں کے ذریعہ معاش پاکستان کے موجودہ معاشی ڈھانچے کے لئے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ عالمی اور قومی سطح پر اس سیاق و سباق کو وسیع پیمانے پر بھوک کے بحران کے سوا کسی اور چیز سے تعبیر نہیں کیا جانا چاہیے۔ اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن اور ورلڈ فوڈ پروگرام کی 2023 ہنگر ہاٹ سپاٹ رپورٹ میں کینیا، کانگو، ایتھوپیا، وسطی افریقی جمہوریہ اور شام کے ساتھ پاکستان کو “انتہائی تشویشناک” ملک کے طور پر شمار کیا گیا ہے۔ پاکستان میں پانی اور فوڈ گورننس کو مضبوط بنانے سمیت اقدامات کی ایک لمبی فہرست ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے موجودہ پروگراموں کی دھچکوں سے نمٹنے کی صلاحیت بہتر بنانے کی ضرورت ہے جو سماجی تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
ساتھ ہی، متواتر آنے والی موسمیاتی ہنگامی صورتحال، قومی اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ حکام کی صلاحیت کو بڑھانے کا عندیہ ہے، کیونکہ 2022 میں آئی موسمیاتی آفت میں، پاکستان میں 10 ملین سے زیادہ افراد شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہوئے۔ جیسا کہ این اے پی کا کہنا ہے کہ بحران مختلف شعبوں پر مشتمل ہے۔ اس سے نمٹنے کا یہی واحد طریقہ ہے، جو پالیسی اور محکمانہ تقسیم میں رہتے ہوئے نہیں ہوسکتا۔
فضائی آلودگی بھی ایک اہم ماحولیاتی خطرہ ہے اور حالیہ برسوں کے محتاط اندازوں کے مطابق پاکستان میں سالانہ 128,000 افراد کا قاتل ہے۔ عالمی سطح پر ہمارا ملک کم اخراج رکھتا ہے، پھر بھی ہمارے شہری فضائی آلودگی کی سطح بہت زیادہ ہے۔ نیشنل کلین ایئر پالیسی کم انفراسٹرکچر سرمایہ کاری کی پیشکش کرتی ہے جو صوبے فوری طور پر کر سکتے ہیں۔
دوسری جگہوں پر، ہم نے لیونگ انڈس انیشی ایٹو تیار کرنے کے لئے بہت محنت کی ہے۔ انڈس بیسن زیادہ ہجوم، آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے دباؤ کا شکار ہے۔ دریا ہماری 80-90 فیصد آبادی کو تقویت دیتا ہے، اس کے باوجود دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ علاقوں میں سے ایک ہے۔ ہر صوبہ – بشمول گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر، اس کی بحالی میں حصہ دار ہے۔
اگر اس کی پیروی کی جاتی ہے تو بتدریج، لیونگ انڈس انیشی ایٹو بیسن کے قدرتی وسائل اور ماحولیاتی نظام کی مرمت اور بحالی کرے گا۔ یہ مربوط، انتظامی بحالی کی کوششوں کو شروع کرنے کے لیے 25 اقدامات کا ایک مینو تجویز کرتا ہے۔ یہ اقدام جو کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ تبدیلی کا باعث ہوگا، لیکن صرف اس صورت میں جب اسے تمام ترقیاتی منصوبوں میں شامل کیا جائے تاکہ ضروری مالی اعانت حاصل کی جاسکے۔
اب ان تمام منصوبوں پر بین وزارتی توجہ کے ساتھ ساتھ صوبوں کی جانب سے ذیلی قومی کارروائی کی ضرورت ہے۔
آپ کے بعد آنے والے ہم منصب کو کن چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا؟
شیری رحمان: میری تاکید ہے کہ پہلے سے شروع اقدامات کو جاری رہنے دیں۔ اگر اس رفتار کو روکا گیا تو ملک کی علاقائی ضروریات ہماری پالیسیوں پر عمل درآمد کی قومی صلاحیت سے زیادہ تیزی سے بدلنا شروع ہو جائیں گی۔ موسمیاتی تبدیلی حقیقی ہے، یہ تیز ہوتی جا رہی ہے، اور اسے اعلیٰ سطحی توانائی اور توجہ کی ضرورت ہے۔ اس رفتار کے بغیر، ہمارے بین الاقوامی شراکت دار بھی جو ہماری حمایت کے لئے انتہائی پرعزم ہیں، اپنا مقصد کھو دیں گے۔
دوسرے، صرف وزارت ہی نہیں، مسائل سے متعلق، آب و ہوا، ماحولیاتی اور آلودگی کے متعدد ایجنڈوں کی مسلسل بہتری کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ماحولیات، موسمیات اور آلودگی کے لئے وسیع اور شدید اقدامات کی ضرورت ہے، جن میں سے کئی صلاحیتوں اور وسائل کے لئے مقابلہ کرتے ہیں، اس تناظر میں کس کو ترجیح دی جائے اسکی نشاندہی حکومت اور بین الاقوامی سطح پر، ڈویلپمنٹ اور عوامی شعبے یا کثیر جہتی اور دو طرفہ شراکت داروں کے لئے کوئی نیا نہیں، بلکہ بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔ اخراج میں لچک اور کمی کے لئے کسی بھی مخصوص مدّت کے روڈ میپ کے مطابق کمیونٹیز، عوامی اور کاروباری شعبوں کو منتقل کرنے کے لئے اہم ذرایع، باقاعدہ وسائل کا جائزہ، اور زیادہ سوچی سمجھی قیادت اور تنقیدی تفتیش کی ضرورت ہوگی۔
تیسرا، سنجیدہ تکنیکی صلاحیت کا حصول اختیار کریں، کیونکہ پبلک سیکٹر میں اسکی کمی ہے۔ یہ صرف موسمیاتی فنڈز اکٹھا کرنے کی وزارت نہیں ہے، یہ اس سے کہیں زیادہ مصرف رکھتی ہے کیونکہ اور بھی بہت کچھ کی ضرورت ہے۔
دی تھرڈ پول: کیا آپ کاربن ٹریڈنگ کو پاکستان کے لئے ایک حقیقت پسندانہ موقع سمجھتی ہیں؟
شیری رحمان: بالکل! اسکا آغاز پہلے ہی ہو چکا ہے، سندھ نے اپنا کاربن سیکوئیزیشن کمانے میں پیش قدمی کی اور اپنے مینگرووز کو دوبارہ اگانے کے لئے سرمایہ کاری کا آغاز کیا، جو کسی بھی دوسرے جنگل کے مقابلے میں چار گنا زیادہ کاربن جذب کرتے ہیں۔ سندھ حکومت کا ڈیلٹا بلیو کاربن پروجیکٹ، جس کا مقصد 350,000 ہیکٹر مینگرووز کو بحال کرنا ہے، رضاکارانہ کاربن مارکیٹوں کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ مینگرووز جنگلات کی بحالی کے ساتھ تخفیف کی صلاحیت میں بھی ممکنہ طور پر اضافہ کیا جا سکتا ہے: اس منصوبے کے لائف سائیکل کے دوران 27 ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ کے مساوی اخراج کو کم کیا جا سکتا ہے۔
کاربن تجارت کے وسائل چھوٹے پیمانے پر کسانوں کے لئے موسمیاتی اسمارٹ زراعت کے مواقع قائم کرنے میں بھی ہماری مدد کر سکتے ہیں۔ گرین ملازمتوں کو مقامی خواتین کو ترجیح دینا جاری رکھنی چاہیے، کیونکہ تربیت ان کو آمدنی اور قدرتی سرمائے کے تحفظ کے ساتھ پائیدار کنکشن دونوں فراہم کرتی ہے۔
موسمیاتی فنانس، اور خاص طور پر کاربن ٹریڈنگ، بہت سے ترقی پذیر ممالک کے لئے نئی اور ناواقف دنیا ہے، لیکن اس پر کام شروع ہو چکا ہے۔ وفاقی سطح پر، ہم نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ کاربن مارکیٹوں سے بہتر فائدہ اٹھانے کے لئے ورلڈ بینک کے ساتھ کاربن اور فطرت کی رجسٹری پہلے ہی شروع کر دی جائے، اس کو تیزی سے نافذ کرنے کی ضرورت ہے، ساتھ ہی کاربن منیٹائزیشن کے لئے دیگر شعبوں کی نشاندہی کرنا، جیسے فضلہ۔ میرے دور میں، ہم نے کاربن مارکیٹوں اور کاربن کریڈٹ سرٹیفیکیشن کے عمل کے بارے میں معلومات کے اشتراک کے لئے، عالمی معیار ترتیب دینے والی تنظیم، ویرا کے ساتھ تعاون کے معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔ جب فریم ورک کا نفاذ ہو تو کاربن ٹیکسیشن اور ایمیشن کیپس کا بھی اقدامات کی اگلی سیریز کے لئے جائزہ لیا جائے۔ عالمی سطح پر بھی، اس طرح کی تجارت کے لئے رول بک میں اب بھی تبدیلیاں آرہی ہیں۔
دی تھرڈ پول: کوپ28 قریب ہے، آپ کی نظر میں پاکستان کے لیے مستقبل میں کیا رکھا ہے؟
شیری رحمان: اگرچہ لوس اینڈ ڈیمیج فنڈ کا قیام کوپ27 کی ایک بہت بڑی کامیابی تھی، لیکن ترقی پذیر ممالک سے کوپ27 میں کئے گئے وعدوں کو حقیقی تعاون میں بدلنے کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی پبلک سیکٹر مالیاتی چیلنجوں سے گزر رہا ہے، دیکھئے کیا ہوتا ہے۔
صرف وعدے نہیں بلکہ اخراج میں خاطر خواہ کمی کی بھی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی اخراج کم نہیں ہوا ہے، بلکہ بڑھ رہا ہے۔ ہر سی او پی کو ترقی یافتہ دنیا سے فوسل ایندھن کے اخراج میں خاطر خواہ اور ہدفی کمی کی ترغیب دینی چاہیے۔ موسمیاتی تناؤ کے فرنٹ لائن پر موجود ممالک، جیسے پاکستان، پہلے ہی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
مستقبل میں ماحولیاتی تبدیلیاں ہم پر کس طرح اثر انداز ہوں گی اس بارے میں ڈیٹا کی کمی کو دور کرنے کے لیے مزید کام کی بھی ضرورت ہے۔ خطرے کے پیمانے کا نقشہ بنانا بہت ضروری ہے، جو جامع ڈیٹا کا مطالبہ کرتا ہے۔ موسمیاتی خطرات کو سمجھنے کی کوشش کرتے وقت اقوام متحدہ کے خطرے کے انڈیکس کی عدم موجودگی کو بہت زیادہ محسوس کیا جاتا ہے۔
کوپ 28 کو موسمیاتی انصاف پر بھی توجہ دینی چاہیے، خاص طور پر مذاکرات کے دوران عالمی جنوب کے تناظر اور ضروریات کو سنیں اور ان پر غور کریں۔
(شیری رحمان سے یہ خصوصی انٹرویو فرح ناز زاہدی نے کیا ہے جس کا لنک یہاں دیا جارہا ہے)