The news is by your side.

کیا پاکستانی شائقینِ کرکٹ قومی ٹیم سے مایوس ہیں؟

آئی سی سی ورلڈ کپ مقابلے کے لیے بھارت میں موجود پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی وہاں‌ کے روایتی پکوان سے لطف اندوز ہونے کے علاوہ وارم اپ میچوں میں شکست کا مزہ بھی چکھ چکے ہیں۔

یقیناً اصل معرکے سے پہلے یہ میچ صرف مشق ہوتے ہیں، لیکن سوشل میڈیا پر پاکستانی شائقینِ کرکٹ نے وارم اپ میچوں پر بات کرتے ہوئے ایشیا کپ اور دیگر مقابلوں میں شاداب خان، محمد نواز اور فخر زمان کی مایوس کُن کارکردگی پر تنقید ضرور کی۔ ورلڈ کپ اسکواڈ میں شامل ان کھلاڑیوں کو پہلے ہی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا تھا اور اس کی وجہ کرکٹ کے پچھلے مقابلوں میں‌ان کی خراب کارکردگی ہے۔

پاکستانی شائقینِ کرکٹ مایوس کن رویہ کیوں اختیار کیے ہوئے ہیں، اور قومی ٹیم کے کھلاڑیوں پر تنقید کیوں کر رہے ہیں؟ وہ بھی ایسے وقت میں‌ جب وہ کھیل کے میدان میں اپنی روایتی حریف ٹیم کا سامنا کرنے کے لیے بھارت ہی میں موجود ہیں۔ اس کی متعدد وجوہ ہیں جن میں ایک کہ پاکستانی کرکٹ بورڈ آئی سی سی سے بھارت کے مقابلے میں انتظامی امور میں ہمیشہ اپنی بات منوانے میں ناکام رہا ہے۔ پاکستان نے جب بھی آئی سی سی میں اپنا مقدمہ پیش کیا، اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ حال ہی میں ایشیا کپ کی میزبانی میں بھارت کی وجہ سے اہم میچ سری لنکا منتقل کیے گئے جہاں پاکستان کے ہاتھ چھوٹی ٹیموں کے چار میچ لگے اور کھلاڑیوں‌ کی جرسی پر بطور میزبان ‘پاکستان’ بھی درج نہیں‌ کیا گیا تھا۔ یہ بھی بھارتی کرکٹ بورڈ کی کارستانی تھی۔ ادھر ورلڈ کپ کا افتتاحی میچ شروع ہوچکا ہے، لیکن بھارت کی جانب سے پاکستانی شائقین کے لیے ویزے کے اجراء کا اعلان نہیں‌ کیا گیا ہے۔ شائقین نے میچ دیکھنے کے لیے ٹکٹ بھی خرید لیے ہیں اور ہوٹل میں پیشگی بکنگ بھی کروا رکھی ہے۔ اس سے قبل ورلڈ کپ اسکواڈ کے اعلان نے بھی کرکٹ کے دیوانوں کو ناراض کیا تھا۔ وہ پاکستانی چیف سلیکٹر انضمام الحق سے پوچھتے رہ گئے کہ عماد وسیم اور محمد عامر کو سی پی ایل میں شان دار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے باوجود کیوں نظرانداز کیا گیا ہے۔ محمد حفیظ نے بھی کرکٹ کمیٹی اجلاس میں عماد وسیم کی ورلڈ کپ اسکواڈ میں شمولیت کی حمایت کی تھی لیکن ان کی بات نہیں مانی گئی اور انھوں نے اپنے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ شائقین کی اکثریت سوشل میڈیا پر کہتی رہی کہ چیف سلیکٹر انضمام الحق نے ‘دوستیاں’ نبھائی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پرفارم نہ کرنے کے باوجود فخر زمان، محمد نواز اور شاداب خان کو بھارت بھیجا جارہا ہے۔ یہ سب پاکستانی شائقینِ کرکٹ کے لیے غم و غصّے کا سبب بنا ہے۔

ادھر بھارت پہنچنے پر ہمارے کھلاڑیوں کا پُرتپاک انداز میں استقبال کیا گیا جسے دونوں ممالک کے میڈیا نے شہ سرخیوں‌ میں جگہ دی تھی۔ یہ بھارت میں‌ مداحوں‌ کی جانب سے پاکستانی کھلاڑیوں‌ کی حوصلہ افزائی بھی تھی اور اس سے امید بھی کی جارہی ہے دونوں ٹیموں کے مقابلے کے دوران شائقین صرف اور صرف اچھی پرفارمنس کرنے والی ٹیم کو سپورٹ‌ کریں‌ گے۔

حیدرآباد میں‌ ورلڈ کپ کے لیے موجود پاکستان کے 15 رکنی اسکواڈ میں شامل کھلاڑیوں نے شہر کی تاریخ اور ثقافت میں بھی دل چسپی کا اظہار کیا ہےاور وہاں سیر و تفریح کے علاوہ ریسٹورنٹ میں حیدرآباد کے روایتی پکوان سے بھی لطف اندوز ہوتے رہے ہیں۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم نے سوشل میڈیا پر ڈنر کی ایک ویڈیو شیئر کی۔ یہ ’جیول آف نظام‘ ریستوران تھا جہاں‌ ٹیم نے ڈنر کیا۔ ریستوران میں ٹیم کے لیے خصوصی مینو تیار کیا گیا تھا۔ پاکستانی کھلاڑیوں کو ’سکندری ران‘، ’پتھر گوشت‘ اور ’حیدرآباد کا حلیم‘ بہت پسند آیا۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی ٹیم کو سفید پیاز سے تیار کی جانے والی سویٹ ڈش ’انوکھی کھیر‘ بھی پیش کی گئی۔ کھلاڑیوں کو شاید معلوم ہو کہ حیدر آباد دکن کی مشہور ڈش بگھارے بینگن اور مرچوں کا سالن بھی ہے جب کہ خوبانی اور ڈبل کا میٹھا بھی وہاں کا روایتی میٹھا ہے۔

کھلاڑیوں‌ نے اپنے میزبانوں سے حیدرآباد دکن کے حکم راں اور ان کے خاندان کے بارے میں بھی دریافت کیا اور یقینا انھیں یہ بتایا گیا ہو گا کہ نظام آف حیدرآباد میر عثمان علی خان دنیا کے امیر ترین اور نہایت فیاض شخص تھے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ایک بڑے ہیرے کو بطور پیپر ویٹ استعمال کرتے تھے جب کہ ان کے زیرِ استعمال مہنگی ترین گاڑیاں رہی تھیں۔ نظام نے پاکستان کو کئی کروڑ روپے عطیہ کیے تھے اور ان کی سخاوت کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ حیدرآباد دکن تقسیم سے قبل انڈیا کی خوشحال ترین ریاست تھی اور تہذیب و ثقافت کا گہوارہ بھی جس میں‌ مختلف تہذیبیں اور زبانیں زندہ تھیں، جب کہ اردو ریاست کی سرکاری زبان تھی۔ اگر نظام زندہ ہوتے اور ہماری ٹیم بھارت میں‌اچھی پرفارمنس کا مظاہرہ کرتی تو شاید نظام دکن کی جانب سے پاکستانی کھلاڑیوں‌کو بھاری انعام دیا جاتا.

14 اکتوبر کو پاکستان اور بھارت کے مابین مقابلہ ہو گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ حیدرآباد کے روایتی کھانوں، ثقافت اور دکن کے حکمراں خاندان میں دل چسپی لینے والے پاکستانی کھلاڑی کھیل پر کتنی توجہ دیتے ہیں اور فتح‌ حاصل کرنے میں‌ کتنی دل چسپی رکھتے ہیں. یہ آنے والے دنوں میں‌پاکستانی چیف سلیکٹر کی منتخب کردہ ‘بہترین ٹیم’ کے میدان میں اترنے پر ظاہر ہوجائے گا۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں