The news is by your side.

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت !

مجھ سے جب کوئی پوچھتا ہے کہ تاریخ کا مطالعہ کیوں کرتی ہو جب کہ ہر موضوع پر یوٹیوب ویڈیو موجود ہے تو میں سوچتی ہوں کہ جامعات میں ریسرچ کیوں پڑھائی جاتی ہے جب کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے پاس ہر سوال کا جواب تیار ہے۔ اور میرا انسان کے اشرفُ المخلوقات ہونے کے باوجود اس کی سرفرازی سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔

میرے بیٹے نے کل مجھ سے کہا کہ ماما آپ کا نام مل گیا۔ آپ Luddite ہیں۔ یعنی وہ شخص جو مشینی اور تکنیکی ترقی کو ناپسند کرے۔ مزید تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ Luddites وہ برطانوی ہنرمند اور جولاہے تھے جنہوں نے یورپی صنعتی انقلاب کے دوران مشینوں کے بڑھتے ہوئے استعمال کے خلاف نہ صرف صدائے احتجاج بلند کی بلکہ اچھی خاصی توڑ پھوڑ بھی کی۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ پرانے زمانوں میں بھی مجھ جیسے لوگ موجود تھے جو مشینوں پر انحصار کے خلاف تھے۔ ان کو میری طرح یہی فکر ستا رہی ہو گی کہ اگر انسانوں کا کام مشین سنبھال لے گی تو انسان کیا کرے گا؟

راقم کو ارتقاء اور جدّت سے مسئلہ نہیں بلکہ گِلہ ان آسانیوں سے ہے جو انسانیت کو گرہن لگا رہی ہیں۔ اور ہاں یہ خوف بھی کہ انسان کی جگہ اب مشینیں پُر کرنے لگی ہیں۔ سپر مارکیٹ میں بل بنانے کے لیے خود کار کاؤنٹر، کوئی کسی سے راستہ پوچھنے کا تردد بھی نہیں کرتا بس فون میں دیدے گھسا لو اور منزل پر پہنچ جاؤ۔ لوگ بس میں لاہور سے ملتان پہنچ گئے اور ساتھ بیٹھی سواری کا نام تک نہیں پوچھا۔ یقین مانیے اتنا غصّہ آتا ہے جب پکوڑے تل کر نکالنے ہوں اور گھر میں اخبار نہ ملے۔ پھر نوجوانوں کی بے تحاشا تفریح تک تقریباً مفت رسائی، ہر ایک کے پاس اپنی سکرین ہے۔ گفتار کی تمیز سے بے بہرہ تو ہیں ہی، کانوں میں الگ سے گولیاں گھسا لی ہیں۔ بات کرو تو اسکرین پر سے نظریں ہٹائے بغیر جواب دیتے ہیں۔ اگر یونیورسٹی کا کوئی پراجیکٹ ہے تو بس بول کر جو مرضی لکھوا لیا۔ اپنی سوچ استعمال کرنے کی ضرورت ہی نہیں محسوس کی۔ جسمانی طور پر پہلے ہی مشینوں پر انحصار ہے، اب دماغ پر زور دینے سے بھی گئے۔ لغت میں معانی دیکھنے کا تردد بھی نہیں کرنا پڑتا۔ ڈکشنریاں کتب خانوں میں منتظر ہیں کہ کوئی تو استفادہ کرے، وائٹ بورڈ پر کچھ لکھا جائے تو طلبا کی کوشش ہوتی ہے کہ نوٹ کرنے کی بجائے چپکے سے موبائل پر تصویر بنا لیں، نیا ٹائم ٹیبل اب وٹس ایپ گروپ میں شیئر کیا جاتا ہے۔ جھگڑے کے دوران تصفیہ کروانے کے بجائے معاملے کو کیمرے کی آنکھ سے قید کرنے کو فوقیت دی جاتی ہے۔ صبح امتحان ہے تو نوٹس کی سلائیڈز کو ایک نظر دیکھ لو، اسپیلنگ اور املا کی غلطیاں عام ہیں کہ بچّے اسکرین سے پڑھتے ہیں۔

میری والدہ کہا کرتی تھیں کہ ‘راہِ راست بَرو، گرچہ دور است’ ۔ اس کے برعکس اس تیز رفتار ترقی نے شارٹ کٹس کو عمومی رویہ بنا دیا ہے۔ میں تو جنریشن زی کو پہلی کلاس میں ہی بتا دیتی ہوں کہ میں کوئی انسٹاگرام کی ریل نہیں جسے اسکرول کر لو۔ میں تو ڈیڑھ گھنٹہ بول کر ہی جان چھوڑوں گی۔ اس نوکری کے صدقے جاؤں کہ چالیس، پچاس بچّے میرا ‘گیان’ سننے پر مجبور ہیں۔ اس دور میں سامع ملنا بھی نعمت ہے۔ بَھلے وہ ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا رہے ہوں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں