تحریر: حسیب اصغر
غزہ پر حملے، فلسطینیوں سے چھڑپیں، حماس کے ساتھ لڑائی اور اسلامی ممالک سے جنگیں اسرائیل اپنے قیام کے بعد ہی سے لڑتا ہوا آیا ہے، لیکن ماہرینِ معاشیات کا کہنا ہے کہ حالیہ جنگ کو طول دینا اسرائیل کو برباد کرسکتا ہے۔ اسرائیل معاشی اور سیاسی طور پر ایسی جنگ لڑنے کے قابل نہیں ہے جس میں اس کی عسکری طاقت کا 65 فی صد جو کہ ریزو فوج پر مشتمل ہے، اسے طویل مدت تک استعمال کیا جاسکے۔ اس سے اسرائیل کی معیشت کو بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا جس کا اندازہ لگانا فی الحال مشکل ہے۔
صیہونی ریاست میں اخبارات اور آزاد ذرائع نے اسرائیل کے ساتھ حماس کی جنگ کے حوالے سے صیہونی ریاست کو ممکنہ خطرات کی نشان دہی کی ہے۔ ماہرین کے مطابق حماس کے ساتھ جنگ صرف سرحدوں تک محدود نہیں رہے گی اور یہ اسرائیل کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔
اسرائیلی میڈیا کے باخبر ذرائع کے مطابق حالیہ ایک سال کے دوران اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور ان کے شدت پسند اتحادی اسرائیل میں ایک ایسی حکومت بنانے کے شدید خواہش مند ہیں جو کسی کو جواب دہ نہ ہو۔ اس سلسلے میں نیتن یاہو اور ان کے بعض اتحادیوں نے اسرائیلی سپریم کورٹ کے اختیارات کو محدود کرنے یا یوں کہا جائے کہ سپریم کورٹ سے اختیارات لے کر کنیسٹ (اسرائیلی پارلیمنٹ) کو دینے کی بھرپور کوششیں کیں اور اس کے لئے پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیا، جس بل کے ایک حصّے کو اسرائیلی پارلیمنٹ سے منظور بھی کیا جا چکا ہے، تاہم اس کی مکمل منظوری سے پہلے ہی اسرائیلی شہریوں کی بڑی تعداد نے اسرائیلی وزیراعظم اور اس بل کو تیار کرنے والوں کے خلاف شدید احتجاج شروع کردیا۔ یہ احتجاج گذشتہ 10 ماہ سے جاری تھا جس میں اسرائیل کی حزب اختلاف کی جماعتیں بھی شامل تھیں۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ اس بل کے خلاف جہاں اسرائیلی شہری سراپا احتجاج تھے، وہیں اسرائیلی فوج کی بڑی تعداد بھی اس میں شامل ہوچکی تھی جن کو اسرائیلی حکومت کی جانب سے احتجاج نہ کرنے اور ڈیوٹی پر واپس آنے کا حکم دیا گیا۔ میڈیا کو موصول ہونے والے ایک خط پر مبنی رپورٹ سے معلوم ہوا کہ اس حکم کو ماننے سے انکار کر دیا گیا اور ایسا کرنے والوں نے خود کو فوج کے خصوصی دستوں میں رضا کار ریزروسٹ بتایا ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کی 19 جولائی 2023 کی ایک رپورٹ کے مطابق سیکڑوں اسرائیلی ریزرو فوجیوں نے تل ابیب میں مارچ کیا اور حکومت کے سپریم کورٹ کے اختیارات کو محدود کرنے کے منصوبے کے خلاف مظاہرہ کیا۔ حکومت کا حکم ماننے سے انکار کے بعد اسرائیلی فوج کے سربراہ ہرزی ہلیوی باغی ریزرو فوجیوں سے ڈیوٹی پر وپس آنے کی اپیل کرنے پر مجبور ہوگئے اور کہاکہ اختلافِ رائے سب کا حق ہے، مگر فوج اور ریاست کو نقصان نہیں پہنچایا جانا چاہیے۔
16 اگست 2023 کو اسرائیل کے معروف اخبار اسرائیل ٹائمز نے باخبر ذرائع سے ایک خبر شائع کی جس کے مطابق اسرائیلی بحریہ کے سربراہ وائس ایڈمرل ڈیوڈ سار سلامہ کے حکم پر ایک سینئر ریزروسٹ ریئر ایڈمرل اوفر ڈورون کو ملازمت سے معطل جب کہ ریئر ایڈمرل ایال سیگیو کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کا آغاز کردیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان اعلیٰ افسران نے اعلان کیا تھا کہ وہ اسرائیلی شہریوں کے ساتھ نیتن یاہو اور ان کی حکومت کے اسرائیل میں عدالتی نظام میں اصلاحات کے خلاف احتجاج میں شامل رہیں گے، اور اسرائیلی فوج کے لئے خدمات انجام نہیں دیں گے۔ اسرائیل کے معروف عبرانی اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ عدالتی اصلاحات کے نام پر اختیارات کو محدود کرنے کی مخالفت کرنے والوں میں نہ صرف اسرائیلی فوج کے اعلیٰ افسران شامل ہیں بلکہ ملک کا سب سے طاقت ور انٹیلیجنس ادارہ ’موساد‘ بھی اس کے خلاف نظر آرہا ہے۔ اسرائیلی شہریوں اور فوج کے افسران اور اہلکاروں کا اس قانون کے خلاف احتجاج ایک سال سے جاری ہے۔
اسرائیلی ذرائع ابلاغ پر اس حوالے سے خبریں واضح کرتی ہیں کہ اسرائیلی فوج میں حکومتی پالیسیوں کے باعث مایوسی پائی جارہی ہے اور یہی مایوسی ان کو بغاوت کی طرف لے گئی ہے جب کہ بعض اطلاعات کے مطابق کئی اسرائیلی اپنی حکومت کے ایسے فیصلوں سے دلبرداشتہ ہو کر دوسرے ملک منتقل ہونا چاہتے ہیں۔
یہاں ہم اسرائیلی فوج میں ریزور فوجیوں کی تعداد، ان کی اہمیت اور اسرائیل کے لیے ان کی خدمات سے متعلق چند حقائق قارئین کے سامنے رکھیں گے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل اس وقت تاریخ کے نازک ترین موڑ پر کھڑا ہے اور حماس و دیگر فلسطینی مزاحمتی تحریکیں اس کی مشکلات کیسے بڑھا رہی ہیں۔
جیسا کہ ہم پہلے بتاچکے ہیں کہ اسرائیلی فوج میں ریزرو فوج کا تناسب 65 فی صد ہے، جب کہ اسرائیلی فوج تین حصوں پر مشتمل ہے۔ ان میں پہلے فعال فوج ہے جس کی تعداد 173,000 ہے، دوسری ریزرو فورسز ہیں اور اس کی تعداد 465,000 ہے اور اس طرح یہ اسرائیل کی فوج میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔
اسرائیل کے قانون کے مطابق ہر 18 سے 21 سال کی عمر کے شہری کے لیے فوج میں سروس کرنا لازمی ہے جب کہ ریزرو فورسز (ریزرو فوج میں لازمی سروس 51 سال کی عمر تک ختم نہیں ہوتی)۔ اور یہ اسرائیلی قومی سلامتی کے نظریہ کے تحت ہے جسے “شہری فوج کی ضرورت” یا “اسلحہ، قوم کا محافظ ” کہا جاتا ہے۔ تمام اسرائیلی شہری جو ہتھیار اٹھانے کے قابل ہیں، وہ مرد ہو یا عورت، ان پر لازم ہے کہ وہ فوج میں اپنی خدمات دیں اور جنگ کی صورت میں باقاعدہ لڑائی میں شریک ہوں۔
یروشلم سینٹر فار پولیٹیکل اسٹڈیز کے سربراہ جیری وکائک کا کہنا ہے کہ حماس کی جانب سے اسرائیل کے خلاف اس بڑی کارروائی کے بعد اسرائیل نے تاریخ میں پہلی مرتبہ جنگ کا اعلان کیا اور کہا کہ ہم اس جنگ کو طویل ہونے کے باوجود جیتنے سے پہلے ختم نہیں کریں گے۔ اس اعلان کے ساتھ اس نے تقریباً 360,000 ریزرو فوجیوں کو طلب کرلیا اور دنیا میں جہاں کہیں بھی یہودی مقیم ہیں انھوں نے اسرائیل کا رخ کرنا شروع کر دیا۔ جیری وکائک کہتے ہیں کہ اسرائیلی فوج کے ریزرو سپاہی وہ شہری ہوتے ہیں جو مختلف صنعتی، زرعی اور زندگی کے دیگر شعبہ جات میں خدمات انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی وجہ سے ملکی معیشت کا پہیہ چلتا ہے، اسرائیل جب ان کو اپنے کاموں سے ہٹ اکر جنگ کے لئے بلائے گا تو اس کی معیشت اور خدمات کا سلسلہ رک جائے گا اور اسرائیل کے اس اقدام سے معیشت کو بڑے نقصان سے دوچار کیے بغیر طویل جنگ لڑنے کی صلاحیت پر سنجیدہ سوالات اٹھتے ہیں۔
اسرائیلی یونیورسٹی آف حیفا میں نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز پروگرام کے ڈائریکٹر گیبریل بین ڈور کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ نیتن یاہو کچھ غیر معمولی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے بتایا ہے کہ تمام اہل مردوں کو سال میں ایک مرتبہ فوج میں خدمات دینے کے لئے حاضر ہونا ضروری ہے جو اوسطاً 26 دن اور افسران کے لیے 24 دن ہے لیکن نیتن یاہو نے اس مرتبہ تقریبا تمام ہی رضا کار فوجیوں کو ڈیوٹی جوائن کرنے کا حکم دیا ہے اور ان اس حوالے ان کو ضروری تفصیلات بھی فراہم نہیں کی گئی ہیں جس سے محسوس ہو رہا ہے کہ وہ ایک طویل مدتی جنگ کے لئے اتنی بڑی فوج کو متحرک کررہے ہیں۔
صیہونی ریاست اسرائیل کی آبادی تقریباً 8.9 ملین افراد پر مشتمل ہے جب کہ پڑوسی ملک مصر کی آبادی 105 ملین سے زیادہ افراد پر مشتمل ہے، اور نیتن یاہو شاید اسی کمی کو ہر شہری پورا کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ اسرائیل بڑی جنگ کی تیاری کررہا ہے۔
“گلوبل فائر پاور” نامی امریکی ویب سائٹ کے مطابق فعال اسرائیلی فوج کی تعداد 173,000 ہے جب کہ رضا کاروں کی تعداد 465,000 ہے۔ اس طرح تقریباً تین چوتھائی ریزرو فورسز کو حماس کے خلاف جنگ کے لئے طلب کیا گیا ہے لیکن دیکھا جائے تو غزہ کی آبادی 22 لاکھ سے زیادہ نہیں ہے اور یقینی طورپر غزہ میں خواتین اور بچوں کی تعداد 50 فیصد سے زیادہ ہے، یعنی اسرائیل کی آبادی کے ایک چوتھائی سے بھی کم، تاہم مجموعی طور پر 530,000 سے زائد اسرائیلی فوجیوں کو لڑنے کے لئے متحرک کیا جا رہا ہے۔ تو کیا یہ تیاریاں حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ سے تعلق رکھنے والے چند ہزار عسکریت پسندوں سے لڑنے کے لیے کی جا رہی ہیں؟
اندازہ لگایا جاتا ہے کہ القسام بریگیڈز کے مسلح ارکان کی تعداد 20,000 سے زیادہ ہے، اور ان کے متحرک ہوجانے کے بعد یہ تعداد 50,000 تک ہوسکتی ہے۔ اس سے اسرائیلی فوج کے مقابلے میں طاقت کا عدم توازن صاف ظاہر ہے۔ اس طرح اسرائیلی فوج کے ہتھیاروں کے بارے میں بات کیے بغیر صرف عددی برتری کو دیکھا جائے تو اسرائیل واضح طور پر سبقت رکھتا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر لحاظ سے اسرائیل اس قدر واضح برتری رکھنے کے باوجود اتنی فوج کو کیوں متحرک کررہا ہے؟ اور جب کہ ماہرین اس اقدام سے اسرائیل کی معیشت کو بڑے نقصان کی نشان دہی بھی کرچکے ہیں!
اس سوال کے جواب کے لیے ضروری ہے کہ اس جنگ کے اہداف کو تلاش کیا جائے کیونکہ 7 اکتوبر کو غزہ سے اسرائیل پر حملوں کے باعث عالمی سطح پر اسرائیلی فوج کا وقار اور اس کی انٹیلیجنس صلاحیتوں کو وہ دھچکا لگا ہے جس کے بعد شاید عشروں تک اسرائیل خود کو سنبھلنے کے قابل نہیں سمجھتا۔ اس حملے نے اسرائیل کا رعب و دبدبہ ہی ختم نہیں کردیا بلکہ اس کی خفیہ ایجنسی موساد کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے اور اسی لیے نیتن یاہو اتنی بڑی فوج جمع کر کے ہفتوں یا مہینوں تک جنگ جاری رکھنے کی صلاحیت کو آزمانا ضروری سمجھتے ہیں۔
حماس کے حملوں کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع ، وزیر خارجہ اور خود وزیراعظم نے اعلان کیا کہ حماس کو ختم کرنے کے بعد ہی اس جنگ کو ختم کرنے کا اعلان کریں گے، اسرائیلی حکام ایک ایسی جنگ کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو ہفتوں تک جاری رہ سکتی ہے اور اس سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ وہ صرف القسام بریگیڈ کے جنگجوؤں سے غزہ کے ارد گرد کی بستیوں کو صاف کرنے تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ وہ غزہ پر زمینی حملہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن بعض ماہرین کا خیال ہے کہ زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو یہ اسرائیل کے لئے ممکن نہیں ہے۔
اسرائیلی فوج کے دعوؤں اور 2014 میں غزہ کی جنگ کو مدنظر رکھا جائے تو اسرائیل نے غزہ میں 8 جولائی سے 26 اگست تک 50 دنوں تک جنگ جاری رکھی، 2006 کی لبنان جنگ 12 جولائی سے 14 اگست تک تقریباً 34 دن تک جاری رہی۔ اگر بات کی جائے 1967 کی جنگ کی تو وہ بھی صرف چھ دن تک جاری رہی۔ یہاں تک کہ اکتوبر 1973 کی جنگ جس کے دوران مصری فوج خط بارليف کو عبور کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی، وہ بھی 6 سے 25 اکتوبر تک صرف 20 تک جاری رہی تھی۔ اس جنگ کے حوالے سے یہ بات بہت اہم ہے کہ اس وقت کی مصری حکومت اسرائیل کی اس کمزوری سے آگاہ تھی کہ اگر جنگ طویل ہوتی ہے تو اسرائیلی فوج مہینوں تک اپنے ذخائر کو محفوظ رکھنے کے قابل نہیں ہوگی جس کی بڑی وجہ اس کی رضا کار فوج تھی جو زندگی کے دیگر شعبہ جات میں کام چھوڑ کر لڑنے کے لیے طلب کئے گئے تھے۔ اسی لئے اسرائیلی حکومت نے بھی اس کو “جنگ کی جنگ” قرار دیا تھا۔
1967 سے 1970 تک جاری رہنے والی یہ جنگ کوئی روایتی جنگ نہیں تھی، اس جنگ میں دونوں طرف سے توپ خانے سے بارو کے گولوں کا تبادلہ، الگ الگ اور وقفے وقفے سے خصوصی آپریشنز، اسرائیلی فوج کے گھروں پر چھاپے، مصر، شام کے محاذوں پر محدود لڑائیاں اور اردن، اور کئی اسرائیلی جنگی جہازوں پر بمباری کی گئی تھی، یہ واحد جنگ تھی جس میں دنوں اور ہفتوں کے بجائے برسوں لگے لیکن روایتی معنوں میں یہ جنگ نہیں تھی اور تل ابیب کو اس عرصے میں اپنے تمام ریزرو فوجیوں کو بلانے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن حماس کے حالیہ تباہ کن حملوں کے ساتھ شروع ہونے والی غزہ کی یہ جنگ اس سے پہلے ہونے والی تمام جنگوں سے مختلف ہے، کیونکہ نصف صدی میں یہ پہلی بار ہے کہ اسرائیل نے “سرکاری طور پر” جنگ کا اعلان کیا ہے۔ نیز، اسرائیلی فوج کے ترجمان کی طرف سے غزہ کے باشندوں کو سینائی کی طرف نقل مکانی کرتے ہوئے غزہ سے نکل جانے کی ہدایت کی گئی ہے جو غزہ پر اسرائیل کے دوبارہ قبضہ کرنے اور تمام مزاحمتی تحریکوں کو ختم کرنے کی اسرائیلی خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔
اس پس منظر میں زمینی حملے اور شہری جنگ لڑنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اسرائیل اس بات کو سمجھ چکا ہے کہ حماس کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لئے صرف فضائی کارروائیاں کارگر نہیں ہوں گی کیونکہ حماس نے زیر زمین سرنگوں کا ایک ایسا انتظام کیا ہوا ہے جو اسرائیل کے لئے درد سر ہے اور اسرائیل کئی مرتبہ کوشش کے باوجود ان سرنگوں کو تباہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔
دوسری طرف یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ فلسطین میں مزاحمتی تحریکیں باقاعدہ فوجوں کے مقابلے میں گوریلا لڑائی کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں، اور اسی لیے تل ابیب میدان جنگ میں ہر لحاظ سے برتری اور غلبہ رکھنے کے باوجود غزہ میں زمینی جنگ چھیڑنے پر مجبور ہوگیا جس کا اختتام 2008 اور 2014 کی جنگ پر تھا جب اسرائیل کو اپنے فوجیوں کو چھڑوانے کے لئے حماس کے ساتھ مذاکرات کرنا پڑے تھے اور ایک اسرائیلی فوجی کی رہائی کے بدلے میں ایک ہزار چالیس فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنا پڑا تھا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ غزہ میں جنگ فلسطینی دھڑوں کی ثابت قدمی اور ان کی حکمت عملی پر منحصر ہے۔ جس میں دیکھنا ہوگا کہ کیا وہ شہری جنگ میں حصہ لیں گے، یا گوریلا طرز پر ایسے حملوں کو ترجیح دیں گے، جس کے لیے زمینی محاذ پر موجود رہنے کی ضرورت نہیں بلکہ حملہ کر کے اپنے ٹھکانے کی طرف نکل جائیں گے۔
تاریخ گواہ ہے کہ اسرائیل نے فلسطینی مزاحمت کاروں سے زمینی جنگ میں کبھی سبقت حاصل نہیں کی ہے، اس لئے اگر اسرائیلی فوج غزہ میں داخل ہوتی ہے تو حماس کے جانبازوں کے حملے روکے گی یا جنگ کو لبنان تک لے جانے کی کوشش کرے گی جو اس کے گریٹر اسرائیل کے منصوبے کا حصہ ہے لیکن یہاں ایک بات اور انتہائی اہم بات ہے کہ غزہ میں حماس کے زیادہ سے زیادہ 50 ہزار جنگجو ہیں لیکن اگر اسرائیل اس جنگ کو لبنان تک لے جانے کی غلطی کرتا ہے تو حزب اللہ کے ایک لاکھ سے زیادہ جنگجوؤں کا مقابلہ کرنا اس کے لئے مشکل ہوگا، اس کے علاوہ شامی سرحد بھی اسرائیل کے لیے مقتل گاہ بنی ہوئی ہے، اسرائیلی فوج شام کی سرحدوں پر بھی زمینی لڑائی کے بجائے بمباری سے اپنے اہدا ف حاصل کرتا ہے، ایسی صورتحال میں اسرائیل کو تین محاذوں سے غیر معمولی حملوں کا سامنا ہوگا جب کہ مغربی کنارے میں عرین الاسود نے بھی اسرائیلی فوج کی نیندیں اڑائی ہوئی ہیں اور ان کے حملوں میں اسرائیلی فوج کا جانی اور مالی نقصان روزانہ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ ان حالات میں ایک فوج اتنے محاذوں پر کیسے کامیاب ہوسکتی ہے۔
اسرائیل میں رضا کار فوجیوں کے حوالے سے اسرائیل ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ کے ایک خصوصی سروے کے نتائج بتاتے ہیں کہ اگر انتخاب کا موقع دیا جائے تو زیادہ تر ریزرو فوجی خدمات انجام دینے کے لئے حاضر نہیں ہوں گے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسرائیلی فوج رضا کار فوجیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے اعزازات اور انعامات سے نوازتی ہے، لیکن وہاں کے عوام کی بڑی تعداد سمجھتی ہے کہ ‘عوامی فوج’ کا ماڈل ترک کر کے فوج کو پیشہ ورانہ طریقے سے خدمات انجام دینا چاہیے۔
غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل سرحدوں پر ہی نہیں بلکہ اندرونی طور پر بھی انتہائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور فلاشا یہودی اور اشکنازی یہودی کے نام سے اس تقسیم کا شکار ہے جس میں عقیدہ اور مذہب تو ایک ہے لیکن ثقافتی اعتبار سے خلیج اس گہری ہے کہ 2016 میں اسرائیل میں فلاشا اور اشکنازیوں کے درمیان جھڑپیں اور ہلاکتوں نے ایک خانہ جنگی کا ماحول پیدا کردیا تھا۔ یہ وہ منظر نامہ ہے جس میں اسرائیل طویل مدتی جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا اور حماس اور حزب اللہ کے ساتھ عرصے تک لڑائی جاری رکھنا اس کے لیے ہرگز آسان نہیں ہوگا۔ عالمی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا کے دوسرے بڑے طاقت ور ممالک روس اور چین یہ بات بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسرائیل کی ہر ممکن مدد امریکہ کی مجبوری ہے اور یہ دونوں ممالک امریکہ کے بڑے مخالف ہیں اور اسے نقصان پہنچانے کے لئے اسرائیل کے خلاف کسی ملک یا گروہ کو خفیہ طور پر امداد فراہم کرسکتے ہیں۔
(نوٹ:یہ بلاگ، مضمون مصنف کی ذاتی رائے اور معلومات پر مبنی ہے جس کا ادارے اور اس کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں ہے)