The news is by your side.

مرنے کے بعد بھی مرے کتبے پہ دھوپ تھی…(کلیم شاداب کی شاعری)

کلیم شاداب کا تعلق بھارت سے ہے. مہاراشٹر کے علاقہ آکوٹ (ضلع آکولہ) کے محمد کلیم الدین شیخ نے2010 میں شاعری کا آغاز کیاتو خود کوکلیم شاداب کے نام سے متعارف کروایا. غزل اس شاعر کی پسندیدہ صنفِ سخن ہے. کلیم شاداب نے ایم اے(اردو، انگریزی ) اور بی۔ایڈ کی تعلیم مکمل کی اور ان دنوں روزگار کے سلسلے میں واشم میں مقیم ہیں.

کلیم شاداب کا کلام ملاحظہ کیجیے.

غزل
سورج پہ چھاؤں ابر کی تارے پہ دھوپ تھی
گویا شجر پہ سایہ تھا پودے پہ دھوپ تھی

جلتا رہا وہ نیند میں پھر راکھ ہوگیا
میری کھلی جو آنکھ تو سپنے پہ دھوپ تھی

سورج تو تہہ میں ڈوب گیا بحر کے مگر
ہلکی سی صرف ایک کنارے پہ دھوپ تھی

اس کو چمکتے رخ کی تمازت سے بیر تھا
سائے میں جسم تھا مرے چہرے پہ دھوپ تھی

میرے دل و دماغ پہ قابض تھا ایک شخص
یعنی خیال و فکر کے سائے پہ دھوپ تھی

پیاسا تھا دشت بحر پہ بادل برس پڑے
سایہ ہدف بنا ہے نشانے پہ دھوپ تھی

جتنے بھی خار دشت تھے سایہ میں تھے سبھی
گلشن میں اک گلاب کے غنچے پہ دھوپ تھی

کاٹی حیات غم میں اجل دے گئی خوشی
منزل پہ میری سایہ تھا رستے پہ دھوپ تھی

جب تک جیا میں سر پہ تھا سورج سدا سوار
مرنے کے بعد بھی مرے کتبے پہ دھوپ تھی

اختراعِ فائقہ(نظم)
راستوں پہ فکروں کے جب نکل میں پڑتا ہوں
قافلے ردیفوں کے قافیے قبلیوں کے میرے ساتھ چلتے ہیں
رہنما قلم بن کر راستہ دکھاتا ہے
بحر مشکلوں والی روکتی ہے راہوں میں
سنگلاخ ہوتی ہے جب زمیں غزل والی
ٹھوکریں میں کھاکھاکر طے سفر یہ کرتا ہوں
حرف حرف سے جڑ کر ایک لفظ بنتا ہے
لفظ لفظ سے جڑ کر ایک شعر ہوتا ہے
لفظ کی مسافت سے چور چور ہوتا ہوں
پر غزل کی منزل سے دھیان ہی نہیں ہٹتا
ذہن ہی نہیں بٹتا
شاعری سفر میرا اس کا میں مسافر ہوں
منزلیں مری غزلیں ہاں میں ایک شاعر ہوں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں