پاکستان کے شمالی صوبہ خیبر پختونخوا کی وادیوں میں مقامی کالاش کمیونٹی صدیوں سے پھل پھول رہی ہے اور اپنے رنگا رنگ تہواروں اور کثرت پرستی (ایک سے زیادہ خداوں کو ماننا) کی روایات سے دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتی ہے۔ ضلع چترال میں رہنے والے تین سے پانچ ہزار افراد پر مشتمل کالاش کا علاقہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے دوچار ہے۔ گزشتہ دہائی کے دوران یہاں ان اثرات میں تیزی آئی ہے، ان میں سے بہت سے اثرات اِن وادیوں کے گرد و نواح میں موجود جنگلات کی حد سے زیادہ کٹائی کی وجہ سے بڑھ گئے ہیں۔
کالاش کون ہیں؟
چترال ضلع میں ہندوکش پہاڑی سلسلے کی دور افتادہ وادیوں رمبور، بریر اور بمبوریت میں رہائش پذیر، کالاش کلاش یا کالاشہ کمیونٹی پاکستان کا سب سے چھوٹا نسلی مذہبی اقلیتی گروہ ہے۔ کالاش قبیلہ ایک قدیم طرز زندگی بشمول مظاہر پرستی (نباتات اور جمادات میں ایک روح کو جاری و ساری ماننا) کو دوام بخشے ہوئے ہے۔ 1959 میں پاکستان کے شمالی علاقوں میں کلاش کی آبادی کا تخمینہ دس ہزار تھا لیکن زیادہ تر لوگوں نے اسلام قبول کر لیا ہے جس کی وجہ سے یہاں کی آبادی اب اس اعداد و شمار کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہے۔ کالاش کے لوگ زیادہ تر چرواہے اور کسان ہیں، اور اِن میں سے کچھ اپنا کاروبار کرتے ہیں۔
سیلاب اور بڑھتی ہوئی گرمی کی زد میں
ساٹھ سالہ نور شاہدین کا تعلق مقامی کیلاش کمیونٹی سے ہے۔وہ پہلے زمیندار تھے لیکن اب ایک گیسٹ ہاؤس میں کام کرتے ہیں۔ یہ بہت سے کالاشا میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنی زمینیں کھو دی ہیں۔ 2010 کے بعد سے بمبوریت وادی میں آنے والے سیلابوں کے سلسلے انہیں اب بھی یاد ہیں۔
چترال 2010، 2011، 2013، 2015، 2020، 2022 اور 2023 میں سیلاب کی زد میں آیا۔ لگاتار آنے والی آفات نے کالاش کے ذریعہ معاش کو بری طرح متاثر کیا۔ صدیوں سے یہاں کے زیادہ تر لوگوں نے آمدنی کے بنیادی ذرائع کے طور پر کھیتی باڑی، باغات کی دیکھ بھال، اور مویشی پالنے پر انحصار کیا ہے۔
شاہدین نے 2015 کے سیلاب میں بمبوریت میں اپنی دو ایکڑ زرخیز زمین کھو دی تھی جس میں اخروٹ کے چالیس درخت بھی شامل ہیں۔ انہوں نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ، ”ہمارے پاس پورے سال کے لئے کافی مقدار میں خشک میوہ جات، گندم اور مکئی ہوا کرتی تھی لیکن اب میں یہ تمام چیزیں خریدتا ہوں۔”
بمبوریت کبھی ایک پرسکون گاؤں تھا جس میں سرسبز و شاداب کھیتوں سے گزرنے والی ایک پرسکون ندی تھی، مگر اب یہ گاؤں ملبے کے ڈھیر اور بھاری بھرکم پتھروں سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں پر پڑے ہوئے یہ ملبے کے ڈھیر اور بڑے بڑے پتھر اُس قدرتی آفت کی یاد دلاتے ہیں جس نے یہاں کی زمین کے نقشے کو ہی بدل کر رکھ دیا۔
وادی رمبور میں رہنے والے ایک ماحولیاتی کارکن سیف اللہ جان کالاش کہتے ہیں کہ ’’جن لوگوں نے اپنی زمینیں کھو دی ہیں وہ خوراک خریدنے پر مجبور ہیں، جن لوگوں نے اپنا مویشیوں کا ریوڑ کھو دیا ہے انہیں دودھ خریدنا پڑتا ہے، اور جن لوگوں نے اپنے باغات کھو دیے ہیں وہ اب اِن ضروریات کو پورا کرنے کے لئے روزگار کی تلاش میں شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔“
محکمہ موسمیات پاکستان کے مطابق چترال میں 1991 سے 2022 کے درمیان سالانہ اوسط درجہ حرارت میں 0.9 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا۔
افسر خان صوبہ خیبر پختونخوا کی انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔ خان نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ درجہ حرارت میں اس طرح کے اضافے سے کمیونٹی پر “پریشان کن اثرات” مرتب ہوئے ہیں۔
خان کہتے ہیں کہ ’’اِن علاقوں میں برف کا جلد پگھل جانا کسانوں کے لئے مشکلات کا باعث ہے۔” فصلوں کی کاشت کے وقت کے بارے میں خدشات ظاہر کرتے ہوئے وہ یہ جاننے کے خواہاں ہیں کہ کیا روایتی طور پر مارچ میں بوئی جانے والی اور اُگائی جانے والی فصلیں ایک ماہ پہلے بوئی جانے والی فصلوں کے مطابق ڈھل سکتی ہیں اور کیا وہ پھر بھی متوقع پیداوار حاصل کر سکتی ہیں۔
خان نے گرم درجہ حرارت سے وابستہ نئی مشکلات کے بارے میں بات کی۔ مثال کے طور پر، مختلف کیڑوں کا پھیلاؤ جیسے کہ ٹڈیاں جو فصلوں کے لئے خطرہ بن سکتی ہیں کیونکہ ٹڈیاں اُس اناج پر حملہ آور ہوتیں ہیں جو پکنے کے قریب ہوتے ہیں۔
خان نے مزید بتایا کہ “جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے گرمی کی لہروں اور خشک سالی کے باہمی جوابی عمل نے سورج کی روشنی میں رہنے والی پہاڑوں کی ڈھلانوں کی مٹی کو خشک کر دیا ہے۔” یہ عمل، اچانک بارش کے ساتھ مل کر، نہ صرف مٹی کے کٹاؤ کو تیز کرتا ہے بلکہ لینڈ سلائیڈنگ (مٹی کے تودے کا پہاڑ یا چوٹی پر سے لڑھکنا) کے خطرے کو بھی بڑھاتا ہے۔
جنگلات کی کٹائی کے اثرات
اِن وادیوں میں جنگلات کی کٹائی بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔ چترال کے ڈسٹرکٹ فاریسٹ آفیسر آصف علی شاہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔
شاہ نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ درختوں کی کٹائی کے لئے سالانہ ڈیڑھ لاکھ پرمٹ جاری کئے جاتے ہیں، جِسے سیف اللہ جان جنگلات پر ‘ایک بڑی مصیبت’ قرار دیتے ہیں۔ اکتوبر 2011 میں شاہ کی قیادت میں ایک گشتی پارٹی نے درختوں کی غیر قانونی کٹائی میں ملوث افراد کو للکارا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی ٹیم کو “شدید حملے کا نشانہ بنایا گیا، کئی دنوں تک یرغمال بنایا گیا، بہت زیادہ مارا پیٹا گیا اور بعد ازاں ضلعی حکومت کی مداخلت کے بعد رہا کر دیا گیا۔”
دی تھرڈ پول نے پشاور یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر آف جیولوجی ڈاکٹر نوید انجم سے بات کی۔ اُن کا کہنا ہے کہ جنگلات کی کٹائی چترال کی وادیوں کی ڈھلانوں کو پُر خطر بنا رہی ہے، اور اِس کے باعث وہ بارش کی وجہ سے ہونے والے کٹاؤ اور لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں آجاتے ہیں۔” یہ بڑے پیمانے پر تباہی کی ایک اور قسم کا سبب بھی بنتا ہے جسے سولیفلکشن (گیلی زمین کا ڈھلان پر سے بتدریج پھسلنا) کہا جاتا ہے، جہاں مٹی کی نرم اور قابل نفوذ چٹانیں بارش کے پانی کو جذب کرتی ہیں جو نیچے زمین میں سرایت نہیں کر سکتا. اس کے نتیجے میں اِن کی کمیت میں اضافہ ہوجاتا ہے، پھر درختوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے جو کبھی انہیں اپنی جگہ پر روکے رکھتے تھے، ایک بڑی کمیت کی شکل میں نیچے گر جاتی ہیں۔”
کالاش میں ماحولیاتی نظام کو مزید ابتر بناتی ہوئی موسمیاتی تبدیلیوں کا مطلب یہی ہے کہ ہمالیائی لینڈ سلائیڈنگ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
کالاش برادری کی نمائندگی
سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ جیسی آفات کا سامنا کرنے کے علاوہ، کالاش کے لوگوں کو طالبان جیسے شدت پسند گروپوں سے بھی خطرہ ہے۔ لیکن آب و ہوا اور سلامتی کے خدشات کے باوجود، کالاش برادری پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔
پاکستان میں دیگر اقلیتی گروہوں جیسے سکھ یا ہندوؤں کے برعکس، کالاش اور اُن کے مذہب کو ملک کے قومی ڈیٹا بیس میں سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ حکومت کی ترجیحات میں نہ ہونے کے سبب کالاش کے لوگ شناختی دستاویزات میں مذہب کے خانے میں خود کو “دیگر” کے طور پر نشان زد کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، جبکہ یہ ذاتی کوائف آفات سے متعلق امدادی کاروائیوں میں اہم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امدادی پروگرام عام طور پر صرف سرکاری شناختی کارڈ رکھنے والوں کی دسترس میں ہوتے ہیں.
دی تھرڈ پول نے لوئر چترال کے ڈپٹی کمشنر اور کالاش ویلیز ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل محمد علی سے رجوع کیا۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ کمیونٹی کو ماضی کے نقصانات کے لئے مناسب معاوضہ نہیں دیا گیا ہے۔
فطرت کی حفاظت اور فطری طریقے سے کام کرنا
کیونکہ یہاں حکومتی اعانت ناکافی ہے اسی لئے کالاشا اپنے آپ کو آفات سے بچانے کے لئے خود ہی پیش قدمی کرتے ہیں۔ فطرت کی اپنی صدیوں پرانی عبادت کو مدد نظر رکھتے ہوئے خود مختار کالاش کمیٹیاں جنگلات میں گشت کرتی ہیں اور درخت کاٹنے کی سرگرمیوں کی اطلاع پولیس، محکمہ جنگلات اور ضلعی انتظامیہ کو دیتی ہیں۔
2020 کا ایک مطالعہ اس بارے میں بتاتا ہے کہ کس طرح کالاش کے لوگ آفات کو کم کرنے کے لئے مقامی طریقے استعمال کرتے ہیں اور کمیونٹی قدرتی وسائل کے استحصال کو محدود کرنے کے لئے کس طرح کوشش کرتی ہے۔ مثال کے طور پر، کالاش کی رہائش گاہیں جان بوجھ کر ندی نالوں سے کچھ فاصلے پر تعمیر کی جاتی ہیں۔ گوشمیر کہتے ہیں کہ ” ہم کبھی دریا کے کنارے گھر یا ہوٹل نہیں بناتے۔”
عجب کالاش نامی کمیونٹی کے ایک رکن نےدی تھرڈ پول کو بتایا کہ “چونکہ درختوں کو مقدس اور جاندار سمجھا جاتا ہے، لہذا ہم گھر کی تعمیر اور جلانے کے لئے ہواؤں سے اکھڑ جانے والی خشک لکڑی کا استعمال کرتے ہیں۔” نتیجے کے طور پر چترال کا شاہ بلوط جو جنس کا پیڑ ہے، جسے پختہ ہونے میں پچاس سال تک لگ سکتے ہیں، ضلع کے دیگر حصوں کے برعکس کالاش کی وادیوں میں بغیر کسی خطرے کے پنپتا رہتا ہے ۔
کالاش میں سیلاب کی آمد سے قبل کا انتباہی نظام موجود نہیں ہے اور کالاش کے لوگ صرف اپنی سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی حکمت کی وجہ سے بدترین سیلاب کے اثرات سے بچے ہوئے ہیں۔ شاہدین کے مطابق، کالاش کے لوگوں نے “دور دراز کی وادیوں سے آنے والے سیلاب کی آواز اور خوشبو” کا پتہ لگانے کے فن میں کمال حاصل کیا ہوا ہے۔
دریں اثنا، سوری جاگیک (سورج کا مشاہدہ) کی مشق کالاش کے لوگوں کو موسم کے نمونوں کی پیش گوئی کرنے میں مدد کرتی ہے۔ اِس تکنیک سے اِنہیں موسمیاتی تبدیلی سے موافقت پیدا کرنے میں مدد مل رہی ہے، کیونکہ سوری جاگیک انہیں بارش کا اندازہ لگانے اور پھر اِس کے مطابق فصل کی کٹائی کی منصوبہ بندی کرنے اور مویشیوں کا انتظام کرنے میں مدد دیتا ہے۔
پشاور یونیورسٹی کے ڈیزاسٹر پریپیرڈنیس اور منیجمنٹ سینٹرکے پروفیسر مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ کالاش کمیونٹی زلزلے کے خلاف مزاحمت کرنے والے دَھجّی دیواری (وہ دیوار جو آڑی ترچھی لکڑیاں لگا کر چُنی اور گارے سے بھری جائے) تعمیراتی نظام کا استعمال کرتی ہے۔ یہ طریقہ چنائی والی دیواروں کے بجائے لکڑی کے فریموں پر انحصار کرتا ہے۔ یہ ماڈل پاکستان میں 2005 کے زلزلے کے بعد بالاکوٹ کی تعمیر نو میں اپنایا گیا تھا۔
شاہدین کے مطابق کالاش کے لوگ اپنے آباؤ اجداد سے نسل در نسل منتقل ہونے والے ایک اُصول کے مطابق زندگی گزارتے ہیں کہ ” کبھی فطرت کے ساتھ کھلواڑ نہ کریں۔”