The news is by your side.

روشنی کی آلودگی کراچی کے ساحل پر آنے والے کچھوؤں کو خطرے میں ڈال رہی ہے

14 اگست 2023 کو جب پاکستان نے یوم آزادی منایا تو صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ نے 5.9 کلومیٹر طویل ماڑی پور سڑک کا افتتاح کیا۔ عالمی بینک نے اس سڑک کو ٹھیک کرنے کے لئے رقم دی۔ یہ کراچی شہر کے لئے ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے، جس کے لئے عالمی بینک نے کُل 840 ملین روپے (3 ملین امریکی ڈالر) کی مالی اعانت فراہم کی ہے۔ اس منصوبے کو کمپیٹیٹو اینڈ لیوایبل سٹی آف کراچی (کلک) کا نام دیا گیا ہے۔

اس کے صرف 15 دن بعد ہاکس بے اور سینڈ سپٹ کے ساحلوں پر کچھوؤں کے انڈوں سے نکلنے کا موسم شروع ہوا، جو نئی افتتاح شدہ سڑک سے تقریبا 100 میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی نے بھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ سڑک کی لمبائی کے ساتھ 120 واٹ کی پانچ سو ایل ای ڈی اسٹریٹ لائٹس سمندری جنگلی حیات خاص طور پر کچھوؤں کی افزائشِ نسل کی جگہوں (گھونسلوں) کو کس طرح متاثر کریں گی۔

پاکستان میں کراچی کے سمندر کے کنارے موجود ساحلی پٹّی خطرے سے دوچار کچھوؤں کی افزائشِ نسل کے لئےاہم جگہیں ہیں جہاں وہ انڈوں سے نکلتے ہیں، لیکن سڑکوں اور ریستورانوں کی مصنوعی روشنی سے اِنہیں خطرات لاحق ہیں

پاکستان میں ورلڈ وائڈ فنڈ کے میرین پروگرام کوآرڈینیٹر شعیب عبدالرزاق نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ اِن ساحلوں کی نرم ڈھلوانیں اور ریتلی ساخت کچھوؤں کے گھونسلوں کے مقامات کے لئے مثالی ہیں۔ تاہم، یہ ناخوشگوار سفید ایل ای ڈی لائٹس اِس جنگلی حیات کو درہم برہم کرسکتی ہیں۔

بحر ہند و بحرالکاہل کی جنگلی حیات میں سمندری ماحولیاتی نظام پر آرٹیفیشل لائٹ ایٹ نائٹ کے اثرات پر 2022 کے ایک تحقیقی مقالے میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ روشنی کی آلودگی (بیرونی مصنوعی روشنی کا حد سے زیادہ استعمال) کچھوؤں کے گھونسلوں اور اُن کے انڈوں کی افزائش کے لئے خاص طور پر اہم خطرہ ہے۔ مصنوعی روشنیاں مادہ کچھوؤں کی سمت کو متعین کرنےکی صلاحیتوں میں مداخلت کرتی ہیں جب وہ اپنے گھونسلوں کی جگہوں کا انتخاب کررہی ہوتی ہیں، اور ساتھ ہی انڈوں سے نکلنے والے کچھوؤں کے بچوں کو بھی متاثر کرتی ہیں جب وہ گھونسلوں سے نکل کر ساحل تک اور پھر سمندر کی طرف اپنا راستہ بناتے ہیں۔

رزاق نے بتایا کہ غروب آفتاب کے بعد مادہ کچھوے پانی میں ڈوبی رہتی ہیں اور انتظار کرتی ہیں کہ اونچی لہر انہیں ساحل کے کچھ فاصلے طے کرنے کیلئے دھکیلے۔اس دوران وہ خطرات کو بھی بھانپ لیتی ہیں، اور اگر “انسانی سرگرمیاں یا روشنیاں نظر آتی ہیں، تو اس بات کے امکانات قوی ہوجاتے ہیں کہ وہ انڈے دیئے بغیر سمندر میں واپس آ جائیں، یا جب ان کے لئے کوئی خطرہ نہ ہو تو دوبارہ ساحل کی طرف لوٹ آئیں۔”

انفارمیشن سسٹم کے ماہر اور سمندری کچھوؤں کے محقق عمیر بن ضمیر نے وضاحت کی کہ انڈوں سے نکلنے والے کچھوؤں کے نئے بچے اور بالغ کچھوے دونوں قدرتی طور پر اُفق کی قدرتی روشنی کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ اگر قدرتی روشنی ضرورت سے زیادہ مصنوعی روشنی سے متاثر ہوتی ہے تو یہ اُن کے فطری راستے میں مداخلت پیدا کرسکتی ہے۔

محکمہ جنگلی حیات سندھ کے میرین ٹرٹل کنزرویشن کے سربراہ اشفاق علی میمن کے مطابق کراچی میں کچھوؤں کی افزائشِ نسل کا موسم ستمبر سے فروری کے وسط تک ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس موسم (ستمبر 2023ء تا فروری 2024ء) کے دوران ساحل سمندر کا دورہ کرنے والی 650 مادہ کچھوؤں میں سے 275 انڈے دیئے بغیر سمندر میں واپس آ گئیں۔ پچھلے سال (ستمبر 2022 سے فروری 2023) 500 مادہ کچھوؤں نے ساحل کا دورہ کیا، اور 250 انڈے دیئے بغیر واپس چلی گئیں۔ مادہ کچھوے کئی عوامل کی وجہ سے انڈے دیئے بغیر سمندر میں واپس آ جاتے ہیں جن میں غیر ضروری اور ناپسندیدہ انسانی مداخلت، ساحل پر ہونے والی ترقی، سمندری ملبہ، پلاسٹک، آوارہ کتوں جیسے شکاریوں کی موجودگی اور روشنی کی آلودگی کے اثرات شامل ہیں۔

ماڑی پور روڈ پر چمکدار سفید ایل ای ڈی لائٹس کی تنصیب کے بعد انڈے دیئے بغیر لوٹنے والے کچھوؤں کا تناسب دراصل گر گیا، لہذا تنصیب سے صرف ایک سال بعد، اعداد و شمار سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا قبل از وقت ہوگا۔

لیکن ایک میعاری ماحولیاتی جائزے کے بغیر یہ لائٹس کیسے نصب کی گئیں، لہذا اِس رویےکی تحقیقات کرنے سے یہ مزید واضح ہوا ہے کہ مقامی انتظامیہ کچھوؤں کی افزائشِ نسل کی جگہوں کو نظر انداز کرتی رہی ہے۔

منصوبے کے ڈیزائن کے دوران کچھوؤں کی پناہ گاہ نظر انداز ہوئی

19 دسمبر 2023 کو پالیسی ریسرچ آرگنائزیشن دی سٹیزنری نے جنوبی ایشیا کے لئے ورلڈ بینک کے اربن ڈیولپمنٹ، ریزیلینس اور لینڈ پریکٹس مینیجر عبدالراز ایف خلیل کو ای میل کی، جس میں انہوں نے کلک منصوبے کے ذریعے سمندری ماحولیاتی نظام پر روشنی کی آلودگی کے بارے میں خدشات کو اُجاگر کیا۔ دی سٹیزنری کو خدشہ تھا کہ ورلڈ بینک جس پروجیکٹ کو فنڈ دے رہا ہے وہ روشنی کی آلودگی کا سبب بن سکتا ہے۔ورلڈ بینک نے اُسی مہینے سائٹ کا دورہ کیا تاکہ وہ خود چیزوں کا جائزہ لے سکے۔

کلک کے ماحولیاتی تحفظ کے ماہر ظہیر احمد نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ عالمی بینک کی ٹیم کے ساتھ ماڑی پور روڈ کے حوالے سے روشنی کی آلودگی کے متنوع حل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ان میں سفید روشنی کو سرخ رنگ میں تبدیل کرنے کے لئے ایل ای ڈی لائٹس کو سرخ سیلوفین سے ڈھانپنا ، تیز سفید روشنیوں کو دھندلا کرنا ، یا کچھوؤں کی افزائشِ نسل کے موسم کے دوران روڈ پر موجود تمام لائٹس آن رکھنے کے بجائے ایک لائٹ چھوڑ کر دوسری کو آن رکھنا شامل تھا۔

انہوں نے کہا کہ کلک نے محکمہ جنگلی حیات سندھ سے سفارشات طلب کی ہیں، جس کے بعد وہ حتمی فیصلہ کریں گے۔

پروجیکٹ کے ڈیزائن کے مرحلے کے دوران یہ مسائل نہیں اٹھائے گئے تھے۔ عالمی بینک کی ہدایات کے مطابق کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) نے سڑکوں کی بحالی کے لئے ماحولیاتی اور سماجی انتظام کا منصوبہ پیش کیا ہے۔ لیکن منصوبے میں سندھ کی صوبائی حکومت کے زیر انتظام کچھوؤں کے سمندری تحفظ کی جگہ کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ جبکہ اس منصوبے میں یہ بتایا گیا ہے کہ “پروجیکٹ کا علاقہ قریبی ساحلوں سے گھرا ہوا ہے اور یہاں تک کہ یہاں کچھوے بھی عام دکھائی دیتے ہیں۔” اس میں یہ بھی واضح طور پر کہا گیا ہے کہ “ذیلی پروجیکٹ کے علاقے کے قریب جنگلی حیات کی کوئی ریکارڈ شدہ پناہ گاہیں یا گیم ریزرو ) زمین کا ایک محفوظ علاقہ جہاں آبی حیات باحفاظت رہ سکتے ہیں یا اُنھیں قانونی طریقے سے شکار کیا جا سکتا ہے) موجود نہیں ہیں۔”

کلک کے لئے ورلڈ بینک کی ٹاسک ٹیم کے سربراہ طاہر اکبر نے 18 جنوری 2024 کو دی سٹیزنری کو لکھا کہ جب ” کلک پروجیکٹ تیار کیا گیا تھا تو دیگر جانداروں کے قدرتی ٹھکانوں پر اثرات کا تصور نہیں کیا گیا تھا۔” یہی وجہ ہے کہ عالمی بینک کی “آپریشنل پالیسی 4.04 اہم قدرتی ٹھکانے” کا آغاز نہیں کیا گیا۔

18 مارچ 2024 کو ، اکبر نے دی تھرڈ پول کو تصدیق کی کہ عالمی بینک نے “قدرتی ٹھکانوں کے تحفظ سے متعلق ہماری پالیسیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے” سڑک منصوبے کے دوسرے حصے کو روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ایک ہفتے بعد انہوں نے لکھا کہ عالمی بینک نے کلک کے باہمی ابلاغ کے رابطہ کار کے ذریعے کے ایم سی سے کہا تھا کہ وہ موجودہ لائٹس پر صرف کور لگانے کے بجائے لائٹس کو پیلے نارنجی رنگ (امبر) میں تبدیل کریں اور یہ اِس لئے کہا گیا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ موسمی اثرات کی وجہ سے کور ٹوٹ سکتے ہیں اور شاید مقامی حکومت انہیں ٹھیک کرنے میں زیادہ دلچسپی نہ لے۔

کمرشل لائٹس

میمن کے لئے روشنی کی آلودگی کا خطرہ بدستور برقرار ہے، جن کی آٹھ رکنی ٹیم ساحل کے آٹھ کلومیٹر کے رقبے پر کچھوؤں کے انڈوں اور بچوں کی حفاظت کرتی ہے۔ میمن نے کہا کہ محکمہ وائلڈ لائف نے ساحل سمندر کی تمام جھونپڑیوں کو مطلع کیا ہے کہ وہ غروب آفتاب کے بعد بالخصوص کچھووں کے انڈوں سے نکلنے کے موسم کے دوران لائٹس بند کردیں۔

تاہم، رات کے وقت، خاص طور پر ہاکس بے ساحل پر کچھوؤں کی افزائشِ نسل کے موسم کے دوران، ساحل سمندر کے بالکل نزدیک کئی گھر نہ صرف روشن رہتے ہیں بلکہ پکنک کرنے والے ٹارچ اور سرچ لائٹس کا استعمال کرتے ہوئے انڈوں سے نکلنے والے کچھوؤں کے بچوں کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔

رات گئے ہونے والی پارٹیاں کچھوؤں کی افزائشِ نسل کے موسم کے دوران براہ راست سمندر کے کنارے نیلی، پیلی اور سفید روشنیاں ڈالتی ہیں اور یہ سب بہت عام ہے۔

ہاکس بے ساحل پر کے ایم سی کی اجازت سے چلنے والا دعا ریسٹورنٹ براہ راست ساحل پر چمکدار سفید اور پیلی روشنیاں ڈالتا ہے جہاں سمندری کچھوے انڈے دیتے ہیں۔

سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کی طرف سے جنگلی حیات کا مشاہدہ اور نگرانی کرنے والے محمد عامر کا کہنا ہے کہ پکنک کرنے والوں کو اپنی جھونپڑیوں کی لائٹیں بند کرنے پر قائل کرنے کی کوششوں کے باوجود وہ اکثر ایسا کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ مقامی ماہی گیر برادری سمندری کچھوؤں کے تحفظ کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے، لیکن تعلیم یافتہ شہر کے باشندے اِن کوششوں کے بارے میں برائے نام ہی ردعمل ظاہر کرتے ہیں اور زیادہ توجہ نہیں دیتے ہیں۔

یہ پاکستان میں روشنی کی آلودگی کے بارے میں ایک طویل رپورٹ پر تازہ ترین مضمون ہے، جسے دی سٹیزنری نے شائع کیا ہے، اور اسے انٹر نیوز کے ارتھ جرنلزم نیٹ ورک کے تعاون سے تیار کیا گیا ہے۔

(انیب اعظم کی دی تھرڈ پول کے لیے اس رپورٹ کا لنک  یہ ہے۔ یہ رپورٹ سمندری حیات کے تحفظ اور بقا سے متعلق شعور بیدار کرنے کے لیے یہاں بھی شایع کی جارہی ہے)

شاید آپ یہ بھی پسند کریں