عزم الحسنین عزمی کا تعلق پنجاب کے شہر گجرات کے ایک گاؤں ڈوڈے سے ہے۔ درس و تدریس سے وابستہ عزمی زمانہ طالب علمی ہی سے مطالعہ کے عادی ہیں۔ کتب بینی کے شوق نے شاعری کی طرف مائل کیا اور مسلسل مشقِ سخن کے ساتھ ان کے فن اور خیالات میں پختگی آتی چلی گئی۔ آج ان کا کلام ملک اور بیرونِ ملک مختلف ادبی پرچوں میں شایع ہوتا ہے اور انھیں مشاعروں میں مدعو کیا جاتا ہے۔
نوجوان شاعر عزم الحسنین عزمی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔
اس لئے چھوڑ دیا سب نے مجھے یار سمیت
کوئی رکھتا ہے کسی کو بھلا آزار سمیت
فکر سائے کی نہیں اپنے مکاں کی ہے مجھے
لے گیا کھینچ کے سایہ کوئی دیوار سمیت
کر دیا میرے عزیزوں نے مرا کام تمام
راہ میں بیٹھا عدو رہ گیا تلوار سمیت
وقت نے کر دیا اس شہر کا وہ حال کہ بس
آئینہ چونک گیا آئینہ بردار سمیت
شوق سے راج کریں آپ مگر یاد رہے
کھاگئی خاک فنا سر سبھی دستار سمیت
حشر میں مجھ کو توقع ہے سنی جائے مری
رب کو بتلاؤں گا ہر ایک کا سرکار سمیت