پاکستان میں گزشتہ تین سال میں ایندھن کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اور ایندھن کے مہنگا ہونے کی وجہ سے غربت بڑھ گئی ہے۔
سننے میں آپ کو عجیب لگے گا، مگر ایندھن کے مہنگا ہونے کی وجہ سے پاکستان میں متوسط طبقہ بھی غربت کا شکار ہورہا ہے۔ بڑھتے ہوئے توانائی بلوں کی وجہ سے متوسط طبقے کے افراد کو اپنا طرزِ زندگی برقرار رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ اور بعض مواقع پر بچتوں کے ذریعے کو، یا اثاثے فروخت کر کے ایندھن کے اخراجات پورے کیے گئے ہیں۔ بچوں کے تعلیمی اخراجات اور گھروں کے کرائے ادا کرنا اب ان کے لیے مشکل ہورہا ہے۔
توانائی کی غربت کو بطور اصطلاح دیکھا جائے تو یہ مجھے اس وقت سنائی دی جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا اور برطانیہ میں بجلی کی قیمت تیزی سے بڑھی اور وہاں بھی بہت سے متوسط طبقے کے افراد کو مالی معاونت حاصل کرنا پڑی۔ یورپ میں توانائی کی غربت پر ایک ویب سائٹ کے لیے بلاگ بھی تحریر کیا تھا۔ اور آج اس بلاگ کے ذریعے آپ کو بتا رہے ہیں کہ کس طرح بجلی گیس اور پیٹرول مہنگا ہونے سے عوام میں غربت بڑھ رہی ہے۔
ملک میں زیادہ تر ایندھن جیسا کہ فرنس آئل، پیٹرول، ڈیزل ایل پی جی اور آر ایل این جی سب کے سب درآمد کیے جاتے ہیں۔ ملکی سطح پر توانائی کا حصول بھی ہے مگر زیادہ انحصار درآمدات پر ہے۔ کسی بھی چیز کو بیرونِ ملک سے خریدنے کے لئے زرِ مبادلہ درکار ہوتا ہے۔ یعنی ڈالر، مگر پاکستان کے پاس ڈالرز کی قلّت تھی۔ جس کی وجہ سے حکومت نے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تیزی سے کمی کی۔ اس کمی کی وجہ سے درآمدی ایندھن مہنگا ہوا اور عوام پر اضافی مالی بوجھ پڑ گیا۔
ملک میں پیٹرول بھی تیزی سے مہنگا ہوا ہے۔ اپریل 2022ء میں فی لیٹر پیٹرول کی قیمت 144 روپے 15 پیسے تھی جو ستمبر 2023ء میں 300 روپے سے تجاوز کر گیا تھا۔ یعنی تقریبا ڈیڑھ سال میں پیٹرول کی قیمت 156 روپے سے زائد بڑھ گئی تھی۔ عالمی منڈی میں پیٹرول سستا ہونے کے بعد قیمت میں کمی ہوئی ہے۔ مگر اب بھی سال 2022ء کے مقابلے تقریبا دگنی ہے۔
اسی طرح اگر آپ موٹر سائیکل پر یومیہ 2 لیٹر پیٹرول استعمال کرتے ہیں تو اپریل 2022ء میں آپ کا خرچہ 288 روپے تھا۔ ماہانہ خرچہ تقریباً 8 سے 9 ہزار روپے کچھ ہو رہا تھا۔ اب اتنا ہی پیٹرول موٹر سائیکل پھونک دے تو اس کا خرچہ ستمبر 2023 میں بڑھ کر 600 روپے اور ماہانہ خرچہ 18 سے 20 ہزار روپے ہوگیا ہے۔ اس طرح سفری اخراجات دگنے سے زائد ہوگئے ہیں۔
ملک میں صرف پیٹرول مہنگا نہیں ہوا بلکہ مقامی سطح پر حاصل کی جانے والی قدرتی گیس بھی کئی گنا مہنگی کی گئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ سوئی سدرن گیس کمپنی اور سوئی نادرن گیس کمپنی کے نقصانات کی وجہ سے گیس کے شعبے میں گردشی قرضہ 3000 ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے، مگر حکومت نے گیس کی چوری روکنے کے بجائے گیس کی قیمت بڑھا دی ہے۔ ڈیٹا کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ ستمبر 2020ء تک ملک میں قدرتی گیس بہت سستی تھی۔ سوئی گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے وہ صارف جس کا گیس کا بل ستمبر 2020ء میں 121 روپے آتا تھا۔ مسلسل اضافے کے بعد 500 روپے سے زائد ہوگیا ہے۔ یعنی تقریباً 3 سال میں 379 روپے بل میں اضافہ ہوگیا۔ یعنی 4 گنا سے زائد بل بڑھ گیا ہے۔ اسی طرح جو صارف 1500 روپے تک بل ادا کرتے تھے ان کا بل بڑھ کر 4200 سے 4500 روپے تک پہنچ گیا ہے۔
بجلی کے مہنگا ہونے کی وجہ سے پاکستان توانائی کی غربت میں افریقی ملکوں کے باہر سب سے کم فی کس ایندھن استعمال کرنے والا ملک ہے۔ پاکستان میں بجلی کی کھپت انگولا، کانگو، یمن، سوڈان وغیر کے مساوی ہے۔ پاکستان میں بجلی کی فی کس کھپت 20 سال کی کم ترین سطح پر ہے۔
اس کی بڑی وجہ ہے بجلی کا مہنگا ہونا۔ سال 2013ء تک ملک کو بجلی کی قلّت کا سامنا تھا۔ مگر اب بجلی کی کمی نہیں بلکہ اضافی بجلی ملک میں دستیاب ہے۔ 27 ہزار میگا واٹ کی انتہائی طلب کے مقابلے میں ملک میں بجلی کی انسٹالڈ گنجائش 40 ہزار میگا واٹ سے تجاوز کر چکی ہے۔ حکومت نے 2018ء میں معاشی ترقی کا اندازہ کرتے ہوئے ملک میں بجلی کی پیداوار بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ مگر ملکی معاشی ترقی کے بجائے معشیت کرونا لاک ڈاؤن اور سی پیک کے منجمد ہونے کی وجہ سے تقریباً رک گئی ہے۔ اور بجلی کی کھپت میں اضافے کے بجائے کمی ہو رہی ہے۔
اس حوالے سے سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ نے کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹ کو بریفنگ دی اور بتایا کہ کس طرح بجلی کے بلوں میں اضافہ ہوا ہے۔ بجلی کے بلوں میں سال 2021ء سے اب تک 155 فیصد کا نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ایس ڈی پی آئی کے ریسرچ فیلو ڈاکٹر خالد ولید نے یہ بتایا کہ سال 2019ء سے 2024ء کے دوران بجلی کی قیمت بڑھنے کی وجوہات میں امریکی سی پی آئی انفلیشن میں اضافہ بھی شامل ہے۔ ڈیٹا کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ اس دوران امریکی سی پی آئی انفلیشن منفی تھا جو کہ 2024ء میں بڑھ کر 4 فیصد ہوگیا۔ جس کی وجہ سے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 235 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
صرف امریکی افراطِ زر نہیں بلکہ پاکستان میں ہونے والی مہنگائی کے اثرات بھی آئی پی پی کے ٹیرف پر پڑتے ہیں اور مقامی سطح پر مہنگائی بڑھنے سے بھی بجلی کے ٹیرف کی قیمت میں 98 فیصد کا اضافہ ہوا۔ پاکستان میں اس دوران بنیادی شرحِ سود بلند ترین سطح پر رہی۔ مقامی اور درآمدی کوئلہ بھی مہنگا ہوا ہے جس کی وجہ سے بجلی کے ٹیرف میں ورکنگ کیپٹل لاگت 716 فیصد بڑھ گئی۔ ریٹرن آن ایکویٹی میں 184 فیصد، قرض کی اصل رقم کی ادائیگی پر 169 فیصد اور ملکی غیر ملکی قرض پر سود میں 343 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔
بجلی کے مہنگا ہونے میں بجلی کی ڈسٹری بیوشن کمنپیوں کا کردار نہ ہونے کے باوجود عوامی غم و غصے کے علاوہ ان یوٹیلٹیز کو صارفین سے رقم کی وصولی میں کمی کے علاوہ بجلی چوری کے بڑھنے جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ ماہرین کے مطابق ملک میں سالانہ 500 ارب روپے کی بجلی چوری کی جاتی ہے۔
ان تمام اعداد و شمار کو بتانے کا مقصد یہ تھا کہ تقریباً دو سال توانائی کا خرچہ 11 سے 13 ہزار روپے تھا۔ یہی خرچہ اس وقت 28 سے 30 ہزار روپے تک بڑھ گیا ہے۔ اس طرح تقریباً دو سال میں ایندھن پر مجموعی خرچہ 17 سے 20 ہزار روپے تک بڑھ گیا ہے۔ جب کہ اس دوران نجی شعبے میں معاشی صورتِ حال کی وجہ سے تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا ہے۔ ان حالات میں عوام کی مشکلات بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ توانائی کی غربت کو ختم کرنے اور عوام کو سہولت دینے کے لیے حکومت کوششیں تو کر رہی ہے مگر اس میں حکومت کس حد تک کام یاب ہوتی ہے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ لگتا یہی ہے کہ عوام کو توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے اپنے دیگر اخراجات کو گھٹانا ہوگا اور اس سے ایندھن کی ادائیگیاں کرنا ہوں گی۔