آج کل آرٹیفیشل انٹیلیجنس (AI) یا مصنوعی ذہانت کا چرچا ہر طرف ہے مگر میرا روبوٹک ذہانت سے پہلا تعارف سال 2001ء میں ریلیز ہونے والی ہالی ووڈ مووی اے آئی کے ذریعے ہوا تھا۔ یہ میری دانست میں پہلا موقع تھا کہ آرٹیفشل انٹیلیجنس کو متعارف کرایا گیا تھا۔ اس سے قبل روبوٹک ذہانت کے حوالے سے اسّی کی دہائی میں ٹرمینیٹر سیریز نے بھی بہت دھوم مچائی تھی۔ مصنوعی ذہانت یا کمپیوٹر کے ازخود سیکھنے اور عمل کرنے کی صلاحیت کے حوالے سے ماہرین نے بہت سے خدشات کا اظہار اس کی ایجاد کے فوری بعد ہی شروع کردیا تھا۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ ان خدشات میں اضافہ بھی ہوتا رہا۔ مصنوعی ذہانت کی وجہ سے انسانوں کے لیے ممکنہ مسائل پر بہت بحث ہوئی چکی ہے اور یہ بحث آج بھی جاری ہے۔
انسانوں کے لئے ملازمت کے مواقع پیدا کرنا پالیسی سازوں کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اقوام متحدہ کے شعبہ برائے معاشیات و سماجیات کے مطابق اس وقت بھی دنیا میں 7 کروڑ 10 لاکھ سے زائد افراد بے روز گار ہیں اور سال 2050ء تک دنیا کی آبادی 9.8 ارب نفوس پہنچ جانے کا امکان ہے جس میں سے 6 ارب افراد ملازمت کی عمر کے ہوں گے۔ بعض پالسی سازوں کا کہنا ہے کہ ایسے میں نئی ٹیکنالوجیز محنت کی منڈی میں مسائل کو جنم دے سکتی ہیں۔ اور آنے والی دہائی میں 80 فیصد ملازمتوں انسانوں کی جگہ کمپیوٹرز سے کام لیا جارہا ہوگا۔
میری سوچ بھی مصنوعی ذہانت کے خلاف تھی جس کی بڑی وجہ انسانوں کی جگہ میشنوں کا استعمال تھا۔ اسی سوال کے جواب کی تلاش میں کہ کیا واقعی مصنوعی ذہانت اور مشین انسان کو بے روزگار اور ناکارہ کر دے گی، میں پہنچا ایس اے پی کے پاکستان، افغانستان، عراق اور بحرین کے لئے کنٹری منیجر ثاقب احمد کے پاس جنہوں نے ایک مقامی ہوٹل میں صحافیوں سے ملاقات کا بندوبست کر رکھا تھا۔ کمرے میں داخل ہوا تو میرے صحافی دوست نے ثاقب احمد سے سوال داغا کہ کیا وجہ ہے کہ غیر ملکی کمپنیاں پاکستان چھوڑ رہی ہیں۔ میں ایک مایوس کن جواب سننے کا منتظر تھا۔ مگر توقع کے برخلاف ثاقب احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان کا مشکل وقت ختم ہوگیا ہے۔ جو کمپنیاں پاکستان سے جارہی ہیں۔ ان کی اپنی کاروباری وجوہات ہوسکتی ہیں۔ کم از کم معاشی وجہ تو نہیں ہے۔ میں نے گفتگو کا رخ موڑتے ہوئے وہ سوال پوچھ ہی لیا کہ کیا مصنوعی ذہانت انسانوں کو بے روزگار کر دے گی؟ ثاقب احمد نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تاریخ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مشینوں کی آمد سے اور جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے محنت کش کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ جب کانوں کی کھدائی میں انسانوں کی جگہ میشنییں آئیں، زراعت میں ٹریکٹر آیا، کشتی میں چپو اور باد بان کی جگہ انجن لگا تو انسان نے ترقی کی اور ایسا ہی مصنوعی ذہانت، تھری ڈی پرنٹنگ اور روبوٹ کے معیشت کے اس چکر میں شامل ہونے سے ہوگا۔
ثاقب احمد کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت یا اے آئی سے متعلق یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اس سے بڑے پیمانے پر لوگ بے روزگار ہوں گے۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ مصنوعی ذہانت سے بہت سی موجودہ ملازمتیں ختم ہوں گی مگر جتنی ملازمتیں ختم ہوں گی اس سے دگنی ملازمتوں کے مواقع پیدا بھی ہوں گے۔ اس وقت مصنوعی ذہانت کی مارکیٹ 638 ارب ڈالر سے زائد ہے جس کے سال 2034ء تک 3600 ارب ڈالر تک پہنچ جانے کا تخمینہ ہے۔ پاکستان اس مارکیٹ میں سے ایک بڑا حصہ حاصل کرسکتا ہے۔ اگر وہ فوری طور پر اقدامات کرے۔
مصنوعی ذہانت کے ذریعے بہت سا کام جس کے لئے لوگ رکھنا پڑتے تھے اب وہ آسانی سے یا ایک کلک پر مکمل ہوجاتا ہے۔ ملازمت کی درخواستوں میں مطلوبہ افراد کی شارٹ لسٹنگ ہو یا پیداواری عمل میں ڈیٹا کا تجزیہ یہ سب اے آئی ایک سوال پوچھنے پر پورا نظام از خود کھنگال کر جواب بتا دیتی ہے۔ اپنی بات کی دلیل دیتے ہوئے ثاقب احمد نے امریکی مردم شماری کی بنیاد پر بتایا کہ 1950ء سے 2106ء کے درمیان امریکا میں درج 270 پیشوں میں سے صرف ایک پیشہ ختم ہوا ہے۔ اور وہ ہے لفٹ آپریٹر۔ ثاقب احمد کی یہ بات سنتے ہی میرا ذہن میڈیا میں ہونے والی تبدیلیوں کی جانب چلا گیا۔ ماضی میں کسی بھی اخبار میں صحافیوں سے زیادہ کاتب، پیسٹر، وغیرہ ہوا کرتے تھے۔ مگر اب یہ پیشے ختم ہوگئے ہیں۔ ہاتھ سے اخبار لکھنے کا دور ختم ہوا۔ جس سے اخباروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اور اخباروں کے پاس یہ گنجائش پیدا ہوئی کہ ادارتی عملے میں اضافہ کریں۔
ثاقب احمد کا کہنا تھا کہ 2015ء سے پہلے جاب مارکیٹ مختلف تھی۔ آپ نے ایک ہنر سیکھ لیا تو ساری زندگی اسی ہنر سے کمایا کھایا۔ مگر اب ٹیکنالوجی کی تیزی سے تبدیلی ہورہی ہے اور اسی حساب سے ملازمت اور کمائی کے طریقۂ کار بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔ اگر ہر دو یا تین سال بعد اپنی صلاحیت کو نہیں بڑھایا تو نہ ملازمت پر رہیں گے نہ کاروبار میں۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی وجہ سے لوگوں کو ملازمت اختیار کرنے کے لئے نئی اور جدید صلاحیتوں اور ہنر کو سیکھنے کی ضرورت ہوگی۔ ہم جب تعلیم حاصل کررہے تھے تو بہت سی ایسی ملازمتیں جو کہ اس وقت موجود ہیں، اس وقت ان کا تصور بھی نہ تھا۔ تعلیم کے مکمل کرنے کے بعد ایسے ہنر سیکھے جن کی وجہ سے ملازمت پر موجود ہیں۔ بصورت دیگر اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بے روزگار ہوسکتے تھے۔
خیام صدیقی میرے دیرینہ دوست ہیں اور تقریبا دو دہائیوں سے ان سے تعلق ہے۔ وہ اسلام آباد میں ایک بڑی موبائل فون کمپنی کے فن ٹیک سے وابستہ ہیں۔ کراچی آنے پر ملاقات ہوئی تو مصنوعی ذہانت کے استعمال پر بات چیت ہونے لگی۔ خیام کا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت کا استعمال مالیاتی صنعت کو تبدیل کر رہا ہے۔ قرض کی منظوری جو کہ پہلے انسان دیا کرتے تھے۔ اب مصنوعی ذہانت پر مبنی سافٹ ویئر دیتے ہیں۔ اور یہ عمل چند سیکنڈز میں مکمل ہو جاتا ہے۔ اب موبائل فون کے ذریعے قرض کی رقم کی منظوری دینے والوں کے بجائے ڈیٹا کا تجزیہ کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔
یہ بات تو طے ہے کہ مصنوعی ذہانت کی وجہ سے انسان فوری طورپر تو بے روز گار یا ناکارہ نہیں ہورہا ہے۔ مگر یہ طے ہے کہ تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئی ملازمت کی منڈی میں خود کو کسی بھی طرح اہل اور کارآمد رکھنے کے لئے ہر چند سال بعد نیا ہنر سیکھنا ہوگا۔ آپ انجینئر ہیں، ڈاکٹر ہیں، آڈیٹر ہیں یا صحافی مصنوعی ذہانت فیصلہ سازی میں آپ کی مدد گار ثابت ہوسکتی ہے۔ ہم ٹیکنالوجی کو اپنا دشمن سمجھنے کے بجائے اسے اپنا کر آگے بڑھ سکتے ہیں۔