ساحر کی شاعری فلموں اور ان کے عشق کی داستانیں ادبی تذکروں کی بدولت آج بھی زندہ ہیں. ساحر نے جس دور میں اپنا سفر شروع کیا، اس میں اردو ادب پر ترقی پسند تحریک غالب آچکی تھی. اس کے نتیجے میں زندگی اور ادب کے مابین ایک تعلق اور غور و فکر کاوہ راستہ نکلاجس نےاہلِ قلم کو انسان دوستی، محکوم و مجبور طبقات کی حمایت اورقلم کے ذریعے مزاحمت پر آمادہ کیا. اس دور کے چند بڑے اور مقبول ترین شعرامیںساحر لدھیانوی بھی شامل تھے اور وہ عوامی سطح پر جس شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر تھے، وہ کم ہی کسی کا مقدر بنتی ہے. عام لوگ، کالج کے لڑکے لڑکیاں سبھی ساحر کی نظموں کے دیوانے تھے اور ان کے اشعار نہایت ذوق و شوق اور انقلابی ترانے جوش وجذبے سے پڑھے جاتے تھے. کہتے ہیں کہ ساحرایک کم رو انسان تھے، لیکن لڑکیاں ان پر مرتی تھیں. خود ساحر بھی عاشق مزاج مشہور تھے.
ساحر ایک پرکشش شخصیت کے مالک تھے یانہیں، اس پرکچھ لوگوںکی رائے مختلف ہوسکتی ہے لیکن خاکہ نویسوں نے لکھا ہے کہ”ساحر کا قد لمبا، منہ پر چیچک کے خفیف نشانات ، ناک لمبی، آنکھیں بہت خوبصورت تھیں۔ انگلیوں میں سونے کی انگوٹھی، نرم لہجے میں محبت اور پیار کی خوشبو جس سے کوئی بھی شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔
ساحر کا خاندانی تعارف اور شخصی خاکہ اگر بیان کیا جائے تو وہ ایک جاگیردار گھرانے کے فرد تھے، لیکن باپ سے بگڑ گئی. ساحر اپنے باپ سے نفرت کرنے لگے تھے جس نے ان کی ماں کو طلاق دے دی تھی. 8 مارچ 1921ء کو پیدا ہونے والے ساحر کا نام عبدالحئی رکھا گیا۔والدین میں علیحدگی کے باعث ان کی پرورش ماموں نے کی۔ میٹرک میں پہنچتے پہنچتےساحر شعر کہنے لگے۔ کالج تک پہنچے تو ان میں سیاسی شعور بیدار ہونے لگا اور وہ کمیونسٹ تحریک کی طرف راغب ہو گئے۔
غزل، نظم اور فلمی نغمات کے ساتھ ساحر نے شہرت کے زینے تو بہت تیزی سے طے کیے، لیکن محبت کے سفر میںمتعدد بار ناکامیوں کا منہ دیکھا. ساحر نے بچپن اور جوانی میں کٹھن دن گزارے جس کی وجہ سے ان میں ایک خاص قسم کی حساسیت اور تلخی پید ہوگئی تھی۔ساحر نے کہا تھا،
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
ساحر لدھیانوی کے معاشقوں کا قصہ بھی اسی ذیل میں بہتر معلوم ہوگا جو ہمارا موضوع بھی ہے۔ امرتا پریتم اور سدھا ملہوترا کے ساتھ ان کی ملاقاتیں اور عشق لڑانے کا خوب شہرہ ہوا۔ لیکن شادی کبھی نہیں کی۔ لڑکیوں کے ساتھ پہلے وہ خود آگے بڑھتے اور ان کا عاشق ثابت کرنے کے بعد جب وہ بھی ان کی محبت کا دم بھرنے لگتیں تو کسی اور میں مبتلا ہوجاتے. امرتا پریتم کے ساتھ ان کا معاملہ بڑا عجیب تھا. امرتا شادی شدہ تھیں مگر ساحر پر مر مٹی تھیں۔
ساحر لدھیانوی سب سے پہلے بی اے کے آخری سال میں اپنی ہم جماعت پر عاشق ہوئے اور کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے کالج سے نکالے گئے۔ لدھیانہ کے ایک سرگرم راہ نما کی صاحبزادی مہندر چوہدری بھی ساحر کی ہم جماعت تھیں۔ دونوں سامراج مخالف تھے۔ دونوں کے دل مل گئے۔ ایک بار ساحر ان کے گاؤں بھی جا پہنچے تھے لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا. وہ اچانک بیما ر پڑیں اور تپ دق کے مرض میں چل بسیں۔ اس کا غم تو ساحر کو لگا مگر ان کا اگلا پڑاؤ بریندر کور کے عشق کی وادی میں تھا۔ بعد میں سدھا ملہوترہ جیسی مشہور مغنیہ سے ان کے عشق کا چرچا ہوا. لیکن سب سے زیادہ تذکرہ امرتا پریتم کا ہوتا ہے جو کہ خود بھی پنجابی کی ایک بڑی اور مشہور شاعرہ تھیں. بعد میں ساحر بھی مختلف تحریکوں، انجمنوں کا حصہ رہے اورایک بڑے مدیر بن گئے. یہ سفر جار ی تھاکہ ان کے شعری مجموعہ نے ان کو مزیدمقبول بنا دیا. ان کا پہلا مجموعہ ’’تلخیاں‘‘ 1944 میں شائع ہوا۔1949 ء میں وہ لاہور سے واپس بمبئی چلے گئے۔ وہاں ایک کوٹھی بنائی، جس کا نام اپنے مجموعہ کلام کے نام پر ’’پرچھائیاں‘‘ رکھا۔آخری سانس 1980 میں اسی کوٹھی میں لی۔
ساحر ایک مقبول اور بااثر فلمی شاعر تھے.ان کے فلمی گیتوں میںیہ گیت بھی شامل ہے:
یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا
یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
اور یہ گانا آج بھی بہت شوق سے سنا جاتا ہے:
جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا
اس کے علاوہ یہ گیت “کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے” اور “میں پل دو پل کا شاعر ہوں” نے ساحر کی مقبولیت کو گویاچارچاند لگا دیے.
اب ساحر لاہور لوٹے تو امرتا اور ساحر کی ملاقاتوں اور پیار بھری باتوں نے بھی ادبی اور فلمی دنیا میں سب کو متوجہ کرلیا تھا.انھوں نے پہلی بار سنہ1943 میں ایک مشاعرے میں ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔ وہاں مشاعرہ کے دوران بارش شروع ہوئی اور رات کوکھل کر برسی۔ برسوں بعد امرتا نے اس دن کو یاد کرتے ہوئے کہا تھاکہ،’ قدرت نے میرے دل میں محبت کا جو بیج بویا تھا اس کی بارش سے آبیاری ہوئی۔‘
لاہورمیںدونوں میں ملاقاتوں کا سلسلہ زور پکڑ گیا تھا. امرتا تو رہتی ہی لاہور میں تھیں.پھر امرتا پرتیم کو یہ اعتراف بھی کرنا پڑا کہ وہ ساحر کے عشق میں گرفتار رہیں. ساحر ملاقات کے دوران بیٹھے سگریٹ پیتے رہتے اوراس بارے میں امرتا نے لکھا تھا کہ کس طرح ساحرایک کےبعد ایک سگریٹ پیتے تھے۔ ساحر کے جانے کے بعد وہ دوبارہ ان کے سگریٹ سلگانے لگ جاتی تھیں۔ اس طرح وہ سگریٹ پینے کی عادی ہو گئیں۔ امریتا ساری زندگی ساحر کو نہیں بھول پائیں۔
معروف ترقی پسند لکھاری اور صحافی حمید اختر کا ساحر سے گہرا یارانہ تھا۔ ان کے مضمون میں پڑھا جاسکتا ہے کہ ساحر کہیں بھی اکیلے جانے سے گھبراتے تھے، اس لیے جب وہ امرتا سے ملنے پہلی دفعہ ان کے گھر جانے لگے تو انہیں بھی ساتھ لے گئے۔ حمید اختر کے بقول، اس ملاقات میں دونوں میں بات چیت تو بہت کم ہوئی بس وہ ایک دوسرے کو محبت بھری نظروں سے دیکھتے رہے۔ ساحراس وقت معروف ادبی جریدے کے ایڈیٹر تھے ،جس کا دفتر لوہاری اور بھاٹی دروازے کے درمیان سرکلر روڈ پر تھا۔ دونوں یہاں بھی اکثر ملاقات کرتےرہے۔