اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنس کوپ 29 کی تاریخ تیزی سے قریب آرہی ہے جوکہ باکو. آذربائیجان میں 11-22 نومبر کے دوران منعقد ہوگی، حکومت پاکستان اس کانفرنس میں اپنا کیس دنیا کے سامنے پیش کرنے کی تیاری کررہی ہے۔ پاکستانی سول سوسائٹی کی تنظیمیں بھی اس میں شامل ہو گئی ہیں، اور اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کر رہی ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز نے 14 اکتوبر کے ہفتے کے دوران ایسی ہی ایک میٹنگ بلائی تاکہ باکو میں مذاکرات کے لئے موضوعات پہ روشنی ڈالی جا سکے اور آب و ہوا کی کارروائی کے لئے اندرون ملک تعاون کو متحرک کیا جا سکے۔
کوپ 29 کے لئے پاکستان کے عزائم بلند ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی کانفرنس کے اعلیٰ سطحی اجلاس شرکت کا امکان ہے، تاہم باضابطہ فیصلے کا اعلان ہونا ابھی باقی ہے۔ پاکستانی وفد، منسٹری آف کلائمیٹ چینج اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے حکام پر مشتمل ہوگا اور دفتر خارجہ مذاکرات میں شرکت کرے گا۔ صوبوں اور خود مختار علاقوں کی نمائندگی کرنے والے حکام بھی وہاں ہوں گے۔ ماحولیاتی تبدیلی پر پارلیمانی قائمہ اداروں کے ارکان کی بھی شرکت کا امکان ہے۔
جی77 کے ایجنڈوں سے مماثلت
پاکستان کے لئے، کوپ29 میں اہم گروپ جی77 ہے۔ یہ ترقی پذیر ممالک (بشمول چین) کے سب سے بڑے بلاک پر مشتمل ہے جو اقوام متحدہ کے رکن ہیں۔ پاکستانی حکام ایک بار پھر G77 کے اس مطالبے کی حمایت کریں گے کہ گلوبل گول آن اڈاپٹیشن ترقی پذیر ممالک کی ضروریات کو پورا کرتا ہے، جیسا کہ ان کے قومی موافقت کے منصوبوں میں بیان کیا گیا ہے۔
گلوبل گول آن اڈاپٹیشن کیا ہے؟
جی جی اے نے گلاسگو – شرم الشیخ ورک پروگرام کو متحرک کیا، جس نے سائنسدانوں، ٹیکنالوجی کے ماہرین، اور تجزیہ کاروں کو جمع کیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ عالمی موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے بہتر موافقت کیسے حاصل کی جائے۔ یہ ورک پروگرام 2021 میں شروع ہوا تھا اور دو سال بعد دبئی میں کوپ 28 میں یو اے ای فریم ورک فار گلوبل کلائمیٹ ریزیلی انس کی اشاعت کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔
جی جی اے کے وژن کو حاصل کرنے کے لئے کثیر القومی کوششیں جاری ہیں۔
اگست 2023 میں، پاکستان نے ایک جامع، منظم اور پرعزم قومی موافقت کا منصوبہ جاری کیا۔ اس کا مقصد تمام شعبوں میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے متعلق لچک کو بڑھانا ہے، جس میں ، بشمول زرعی پانی کے مربوط سلسلے، شہری لچک، آلودگی پر قابو، اور قدرتی آفات کی صورت میں انتظام بھی شامل ہیں۔ اس منصوبے میں موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ موافقت کو قومی پالیسیوں اور ترقیاتی حکمت عملیوں میں ضم کرنے کا بھی تذکرکیا گیا ہے۔ حکومتی اداروں، نجی شعبے اور سول سوسائٹی کے درمیان بہتر تعاون اس انضمام کو ممکن بنائے گا۔
لوس اینڈ ڈیمیج فنڈ (ایل ڈی ایف ) کوپ28 کے دوران قائم کیا گیا تھا، لیکن اس کے پاس فنڈنگ کا کوئی باقاعدہ ذریعہ نہیں ہے۔ لہذا پاکستان کا کوپ 29 وفد ایل ڈی ایف کی باقائدگی سے ذخیرہ کاری کو یقینی بنانے کے معاہدے کے لئے جی77 کی حمایت حاصل کرے گا۔ پاکستانی حکام فنڈ زکی منظوری کے طریقہ کار کو آسان اور صارف دوست بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیتے رہیں گے۔
پاکستانی حکام، جی77 کے مذاکرات کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کے مشترکہ موقف کی حمایت کریں گے۔ لیکن وہ ترقی یافتہ ممالک اور کثیر جہتی اداروں کے مندوبین کے ساتھ بھی لابی کریں گے جن کے پاس موسمیات سے متعلق منصوبوں کے لئے فنڈ مختص ہیں۔ ان وسائل کو پاکستان کے نیشنل ایڈاپٹیشن پلان پر عمل درآمد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ وہ ریچارج پاکستان جیسے اقدامات اور انڈس بیسن کو بحال کرنے سے متعلق منصوبوں جیسے کہ لیونگ انڈس انیشیٹو کو بھی سپورٹ کر سکتے ہیں۔
وہ اپنے ترقی یافتہ ملک کے شراکت داروں کو وہ امدادی وعدے بھی یاد دلائیں گے جو انہوں نے 2022 میں پاکستان کے ملک بھر میں آنے والے سیلاب سے ہونے والی بڑی تباہی کے تناظر میں کیے تھے، جن کی وجہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات تھے۔ مارچ تک، مبینہ طور پر ان وعدوں میں سے صرف 10 فیصد کو پورا کئے گۓ ہیں۔d.
کوپ 29 میں مرکزی حیثیت فنانس کو حاصل ہوگی
توقع ہے کہ کوپ 29 میں فنانس مرکزی موضوع ہوگا، باکو سربراہی اجلاس کو پہلے ہی “فنانس کوپ” کہا جا رہا ہے۔ اسکی جزوی وجہ نیو کلیکٹوکوانٹیفائیڈ گول آن کلائمیٹ فنانس (این سی کیو جی ) ہے جس پر توجہ مرکوز ہوگی۔
2015 کے پیرس معاہدے کی پیشرفت ، این سی کیو جی کا مقصد ترقی یافتہ ممالک سے ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی مالیات کے بہاؤ میں 100 بلین امریکی ڈالر کا سالانہ ہدف حاصل کرنا ہے۔ یہ اعداد و شمار 2009 میں مخصوص کیے گئے تھے اور اسے 2020 تک پورا کیا جانا تھا، لیکن زیادہ تر تجزیوں سے پتہ چلتا ہے کہ صرف ایک محدود رقم فراہم کی گئی ہے، جبکہ دعوے اس کے برعکس ہیں۔
جبکہ تازہ ترین تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ 2030 تک ترقی پذیر ممالک میں موسمیاتی کارروائی کےلئے 5-6.8 ٹریلین کے قریب امریکی ڈالر کے فنڈز درکار ہوں گے۔ 100 بلین امریکی ڈالر کے اصل وعدے کو پورا کرنے میں ناکامی کے پیش نظر، امکان ہے کہ این سی کیو جی مذاکرات مشکل اور تلخ ہوں گے۔
کوپ 29 میں، حکومتیں گرین کلائمیٹ فنڈ (جی سی ایف ) کی دوسری بھرپائی اور کوپ28 میں قائم ہونے والے انٹرنیشنل فنانس آرکیٹیکچر میں اصلاحات کے وسیع چیلنج پر بھی غور کریں گی۔ مؤخر الذکر بنیادی طور پر ورلڈ بینک، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ، اور علاقائی بینکوں جیسے ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور نیو ڈیولپمنٹ بینک (سابقہ برکس ڈویلپمنٹ بینک) سے متعلق ہے؛ ان اداروں کو اس بات پر کام کرنا چاہیے کہ موسمیاتی تبدیلی پرعالمی اتفاق رائے کی عکاسی کے ساتھ اپنے قرض دینے کے طریقوں کو کیسے دوبارہ وضع کیا جائے۔
اب تک، ان اہم مالیاتی سوالات پر پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے باکو اجلاس کی کامیابی کے حوالے سے بڑے پیمانے پر تشویش پائی جاتی ہے۔
کوپ 29 میں پاکستانی حکومت اور سول سوسائٹی دونوں کے شرکاء، ممکنہ طور پر ترقی پذیر ممالک کو درپیش بڑھتے ہوئے موافقت کے بوجھ سے نمٹنے کی کوششوں پر زور دیں گے۔ خاص طور پرجو اہم شعبوں سے متعلق ہیں جیسے تازہ پانی کی حفاظت، خوراک اور زرعی پیداوار میں لچک کو بڑھانا، اور موسمیاتی بحران کے مضر صحت اثرات کو روکنا۔ باکو میں، پچھلے کانفرنسز آف پارٹیز کی طرح، ترقی پذیر ممالک کی ضروریات اور دستیاب امداد کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق سے ممکنہ طور پر شدید تبادلوں کو ہوا ملے گی۔
بہر حال، تعاون اور ان اقدامات کے جائزوں کی بھی گنجائش ہے جن پر کوپ 28 اور پچھلی کانفرنسوں میں کام کیا گیا (یا کم از کم ان کا آغاز کیا گیا)۔ ان میں قابل تجدید توانائی کے عمل، پائیدار زراعت، اور خوراک کے لچکدار نظام کو فروغ دینے کے لئے اتحاد شامل ہیں۔ پاکستان کی دلچسپی کے مخصوص اقدامات، جیسے، الائنس آف چیمپیئنز فار فوڈ سسٹمز ٹرانسفارمیشن، جو کوپ28 میں شروع کیا گیا، سٹیز اینڈ لوکل ایکشن ٹو کومبیٹ کلائمیٹ چینج اور میتھین کے اخراج کو روکنے کے اقدامات، شامل ہیں۔ ان میں سے بہت سے پبلک- پرائیویٹ اقدامات ہیں، اور باکو کانفرنس اس بات کا اندازہ کرنے کا ایک بہترین موقع ہو گا کہ ان کا کام کتنا اچھا رہا ہے، اور کیا سبق سیکھا جا سکتا ہے۔
یہ مضمون پہلے ڈائیلاگ ارتھ پر شائع ہوا تھا اور ڈی ای کی اجازت سے یہاں شائع ہوا ہے