مشہور جواں مرگ شاعر، مصطفیٰ زیدی اپنی شاعری کے اوّلین دَور میں تیغ اِلہ آبادی تخلّص کیا کرتے تھے اور اسی نام سے ادبی محافل میں جانے جاتے تھے۔ اُن کی ذاتی زندگی اور ناگہانی موت پر بہت کچھ لکھا جا چُکا ہے۔مصطفی زیدی پراسرار موت سے دوچار ہوئے جس کے بارے میں آج بھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں نے خود کشی کی یا انہیں قتل کیا گیا۔ عدالت نے ان کی موت کو خود کشی قرار دیا تھا تاہم اسے بہت سے لوگ قتل قرار دیتے ہیں۔
مصطفیٰ زیدی ایک انتہائی جذباتی اور حسن و جمال کے شیدا شخص تھے جن کے لیے شاید عشق و محبت محض ایک کھیل تھا۔ان کی محبتوں میں الہٰ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی بیٹی سروج بالا سرن بھی شامل تھی اور اس سے عشق کی پاداش میں انہیں الہٰ آباد بھی چھوڑنا پڑا۔اسلامیہ کالج پشاور میں ملازمت کے دوران میں بھی وہ ایک امریکی لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو گئے اور وہاں سے بھی ان کو نکلنا پڑا۔جرمن خاتون ویرا فان سے ان کی شادی بھی محبت ہی تھی جس کے بعد وہ ویرا زیدی ہو ئیں۔ اسی خاتون کے لیے مصطفیٰ زیدی نے اپنی نظم ’’اعتراف‘‘ میں چند بہت عمدہ اشعار کہے ہیں، اور یہ ان کی اپنی اہلیہ کی محبت، وفا، خلوص اور ایثار کا اعتراف ہے۔ ملاحظہ کیجیے.
ترے کرم نے مجھے کر لیا قبول مگر
مرے جنوں سے محبت کا حق ادا نہ ہوا
ترے غموں نے مرے ہر نشاط کو سمجھا
مرا نشاط ترے غم سے آشنا نہ ہوا
کہاں کہاں نہ مرے پاؤں لڑکھڑائے مگر
ترا ثبات عجب تھا کہ حادثہ نہ ہوا
ترے دکھوں نے پکارا تو میں قریب نہ تھا
مرے غموں نے صدا دی تو فاصلہ نہ ہوا
ہزار دشنہ و خنجرتھے میرے لہجے میں
تری زباں پہ کبھی حرف ناروا نہ ہوا
ہزار شمعوں کا بنتا رہا میں پروانہ
کسی کا گھر ترے دل میں مرے سوا نہ ہوا
مری سیاہیِ دامن کو دیکھنے پر بھی
ترے سفید دوپٹوں کا دل برا نہ ہوا