مصطفیٰ زیدی کا شمار ایسے قابلِ ذکر شعرا میں کیا جا تا ہے جنہوں نے غمِ جاناں اور غمِ دوراں کو نہ صرف ذاتی زندگی میں جھیلا بلکہ اپنے کلام میں بھی بھرپور طریقے سے برتا۔ مشہور جواں مرگ شاعر، مصطفیٰ زیدی اپنی شاعری کے اوّلین دَور میں تیغ اِلہ آبادی تخلّص کیا کرتے تھے. ان کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے.
�
غزل
چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ
ہم اس کے پاس جاتے ہیں مگر آہستہ آہستہ
ابھی تاروں سے کھیلو چاند کی کرنوں سے اٹھلاؤ
ملے گی اس کے چہرے کی سحر آہستہ آہستہ
دریچوں کو تو دیکھو چلمنوں کے راز تو سمجھو
اٹھیں گے پردہ ہائے بام و در آہستہ آہستہ
زمانے بھر کی کیفیت سمٹ آئے گی ساغر میں
پیو ان انکھڑیوں کے نام پر آہستہ آہستہ
یوں ہی اک روز اپنے دل کا قصہ بھی سنا دینا
خطاب آہستہ آہستہ نظر آہستہ آہستہ
مقبول پاکستانی شاعر مصطفی زیدی سی ایس پی افسر تھے،جن کی موت پراسرار حالات میں ہوئی . کوئی نہیں جانتا کہ مصطفی زیدی کو قتل کیا گیا تھا یا انھوں نے خود کشی کی تھی.