کیا مصطفیٰزیدی نے اس نظم میںشہناز گل کا ذکر کیا ہے جسے اس شاعر کے قتل کے الزام میںگرفتار کیا گیا تھا؟
رومان پرور شاعر اور عاشق مزاج مصطفیٰ زیدی کی یہ ایک مشہور نظم ہے جو ان کے مجموعۂ کلام میں شامل ہے. مصطفیٰ زیدی ایک اعلیٰ حکومتی عہدے دار اور مقبول شاعر تھے جن کی موت پراسرار حالات میں واقع ہوئی اور اسے خود کشی قرار دیا جاتا ہے. یہ بھی کہا گیا تھا کہ انھیں قتل کیا گیا ہے لیکن مصطفیٰزیدی کیس میں ان کی ایک مجبوبہ شہناز کا نام خوب اچھالا گیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ جس گھر سےشاعر مصطفیٰزیدی کی لاش برآمد کی گئی تھی، وہیں شہناز بھی بے ہوشی کی حالت میں پائی گئی تھی.
اردو زبان کے معروف شاعر مصطفی زیدی نے بچپن ہی میں شعر کہنا شروع کردیے تھے. مصطفی زیدی نے غزل بھی خوب کہی، مگر ان کی نظمیں زیادہ پسندکی گئیں. یہ نظمیں وارداتِقلبی کا عمدہ نمونہ ہیں. ان میں کیفیات اور جذبات کے ساتھ مصطفی زیدی نے اپنی زندگی کے دردو غم ہی نہیں بلکہ اپنے عشق اور آوارگی کو بھی خوب صورتی سے بیان کیا ہے. یہ ایک ایسی ہی نظم ہے جس میں مصطفی زیدی نے اپنی روش ، اپنے دکھ اورایک شوخ غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے دوسروں کو نصیحت کی ہے اور عشق نہ کرنے کو کہا ہے. ان کی یہ نظم ملاحظہ کیجیے.
“کہانی”
بچو، ہم پر ہنسنے والو، آؤ، تمہیں سمجھائیں
جس کے لیے اس حال کو پہنچے، اس کا نام بتائیں
روپ نگر کی اک رانی تھی، اس سے ہوا لگاؤ
بچو، اس رانی کی کہانی سن لو اور سو جاؤ
اس پر مرنا، آہیں بھرنا، رونا، کڑھنا، جلنا
آب و ہوا پر زندہ رہنا، انگاروں پر چلنا
ہم جنگل جنگل پھرتے تھے اس کے لیے دیوانے
رشی بنے، مجنوں کہلائے، لیکن ہار نہ مانے
برسوں کیا کیا چنے چبائے، کیا کیا پاپڑ بیلے
لہروں کو ہم راز بنایا، طوفانوں سے کھیلے
دفتر بھولے، بستر بھولے، پینے لگےشراب
پل بھر آنکھ لگے، تو آئیں الٹے سیدھے خواب
نیند میں کیا کیا دیکھیں، تڑپیں، روئیں، اٹھ اٹھ جائیں
سو جانے کی گولی کھائیں، انجکشن لگوائیں
آخر وہ اک خواب میں آئی سن کے ہمارا حال
کوئل جیسی بات تھی اس کی، ہرنی جیسی چال
کہنے لگی، کوئی جی، تیرا حال نہ دیکھا جائے
میں نے کہا کہ رانی اپنی پرجا کو بہلائے
کہنے لگی کہ تو کیا لے گا: سونا، چاندی، ہار
میں نے کہا کہ رانی، تیرے مکھڑے کی تلوار
پھر دل کے آنگن میں اترا اس کا سارا روپ
اس چہرے کی شیتل کرنیں، اس مکھڑے کی دھوپ
دھوپ پڑی، تو کھل گئی آنکھیں، کھل گیا سارا بھید
غش کھایا، تو دوڑے آئے منشی، پنڈت، وید
وہ دن ہے اور آج کا دن ہے چھٹ گیا کھانا پانی
چھٹ گیا کھانا پانی، بچو، ہو گئی ختم کہانی
میری کہانی میں لیکن اک بھید ہے، اس کو پاؤ
چاند کو دور ہی دور سے دیکھو چاند کے پاس نہ جاؤ
نہ اپنے گھر ہی اس کو بلاؤ !