تحریر: عامرمعانؔ
ایک دور تھا جب تہنیتی پیغام یا تعزیت کرنے کے لیے انتہائی خوب صورت اور موزوں الفاظ میں اپنے لہجے میں مٹھاس ملا کر بالمشافہ ملاقات میں موقع کی مناسبت سے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کیا جاتا تھا۔ دوری یا بوجہِ مجبوری کسی قاصد کی مدد لی جاتی تھی اور اسے وسیلۂ اظہار بنایا جاتا تھا۔ پھر انسان نے کچھ تساہل پسندی سے کام لینا شروع کیا اور بالمشافہ ملاقات کے ساتھ نامے (خط) لکھ کر بھی اپنے جذبات کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔ یوں نامہ بر (ڈاکیے) مقرر ہوئے اور محکمۂ ڈاک کا قیام اور ترقی ممکن ہوئی۔ اس طریقے میں بھی الفاظ کی خوب صورتی اور بات کہنے کا قرینہ مکتوب نگار کی تخلیقی صلاحیت پر منحصر تھا۔ مکتوب نگار خوب صورت الفاظ کا چناؤ کرتا تھا۔
پھر وقت نے مزید کروٹ بدلی اور زمانہ جدید آ گیا۔ اب چونکہ زمانہ بہت ترقی یافتہ ہے اور سوچنے اور لکھنے کا وقت نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے تو اس کا حل بھی ٹیکنالوجی نے ڈھونڈ لیا۔ وہ ہے برقی پیغامات آگے سے آگے پہنچانا (فارورڈ میسج)۔ جی ہاں ، موبائل فون پر وصول کردہ ہدیۂ تہنیت جلدی سے آگے بھیج دیا جاتا ہے۔ شاید کچھ لوگ اب بھی غور کرتے ہوں کہ اس برقی پیغام میں لکھا کیا ہے اور حسبِ مراتب (رتبے اور رشتے کے حساب سے) کس کو کون سا پیغام بھیجا جا سکتا ہے۔ لیکن اکثر یت یہ زحمت بھی گوارا نہیں کرتی۔ اب تو نہ بھیجنے والا پڑھتا ہے، نہ وصول کرنے والا۔ بس ایک دوڑ ہے کہ پیغام ملتے ہی ایک ساتھ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ارسال کردیا جائے۔ آج کے دور میں ہمارے اس طرزِ عمل کے ساتھ ہی جذبوں کی مٹھاس، قرینۂ اظہار و الفاظ کا چناؤ اور جذبات کی پختگی کا بھی اختتام ہوا۔ رشتوں میں دوریاں جذبات کے اظہار میں بخل یا اس پر بند باندھ لینے سے ہی آتی ہیں اور ہم نے تو جذبات کی نہر ہی خشک کر لی ہے۔
ہر طرف مہکے ہوئے پھول سے رشتے تھے جہاں
کوئی لا دے مجھے احساس کی دنیا پھر سے
ایسے ایسے پیغامات فاورڈ مسیج کی صورت میں ارسال کر دیے جاتے ہیں جو روبرو آپ شاید ہی ادا کر سکیں، کیونکہ اس وقت آپ کو بولنے سے پہلے حفظِ مراتب کا خیال آئے گا۔ تو اگر ہم سوچیں کہ جو بات ہم کسی اپنے کو روبرو نہیں کہہ سکتے، اور وہ ایک فارورڈ میسج کے ذریعے اس تک پہنچتی ہے تو وہ کیا محسوس کرے گا اور ہمارے بارے میں کیا تصور کرے گا؟ اکثر ایسے فارورڈ میسج پر مبنی تہنیتی پیغامات کو لوگ اہمیت بھی نہیں دیتے اور اس پیغام کو سنجیدہ ہی نہیں لیا جاتا چہ جائیکہ آپ کے خلوص اور جذبات کو محسوس کیا جا سکے۔
اس معاملے میں اس قدر فراوانی نظر آتی ہے کہ ایک صبح بخیر کا پیغام بھجوانے کے لئے متعدد فارورڈ میسجز بھیجے جاتے ہیں جب کہ ارسال کنندہ نے خود ایک بھی پیغام پڑھا نہیں ہوتا۔ ہر ہر موقع پر ان میسجز سے استفادہ کر کے روبوٹس بنے ہوئے انسانوں کو یہ یاد نہیں رہا کہ وہ معاشرتی حیوان ہیں جن کا قریبی لوگوں کے بغیر گزارہ ممکن نہیں اور ہر خوشی و غم کے موقع پر ان کو ایک کاندھے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور خوشی یا غم کے موقع پر تسلّی دینا، ڈھارس بندھانا، اور حقیقی معنوں میں اپنی رفاقت کا احساس دلانا یا بے پایاں مسرت اور نیک تمناؤں پر مبنی احساسات کا اظہار ان میسجز کے ذریعے ممکن نہیں۔
ہائے وہ خوب صورت پیام جو ہاتھ سے لکھ کر دیے جاتے تھے، اب معدوم ہو گئے ہیں اور رہ گئے ہیں برقی پیغامات ( ٹیکسٹ میسجز) جو ہم وصول کرتے ہیں اور اسی طرح موقع کی مناسبت سے آگے بڑھا دیتے ہیں۔ ایک شعر دیکھیے:
پیغام جو بھجوائے تھے کل فارورڈ اس نے
احساس کی دولت سے کیوں عاری نظر آئے