آج اردو کے مقبول اور سب سے پسندیدہ شاعر فیض احمد فیض کی برسی ہے. فیض کی شاعرانہ عظمت کا اندازہ لگانا ہو تو دیکھا جائے گا کہ ناقدین نے ان کا نام غالب اور اقبال جیسے شعرا کے بعد لیاہے۔ ہم یہاں فیض صاحب کی ایک مقبول ترین نظم نقل کررہے ہیں جو اس شاعر کے مجموعہ کلام نقش فریادی میں شامل ہے اور یہ مجموعہ کلام فیض احمد فیض کی ادبی شناخت بنا. انقلابی اور احتجاجی کلام، رومانوی جذبات اور خیالات کا امتزاج فیض کی شاعری کو منفرد بناتا ہے.
فیض صاحب کی یہ نظم ملکہ ترنم نور جہاں کی آواز میں ملک اور سرحد پار بھی مقبول ہوئی اور اسے 1962 میں فلم قیدی میں شامل کیا گیا۔ نور جہاں کی آواز میں یہ نظم اتنی مقبول ہوئی کہ ادبی تذکروں میں آتا ہے کہ فیض صاحب نے کہہ دیا ’اب یہ نظم ہماری نہیں، یہ مادام نور جہاں کو دے دی ہے۔‘ نظم ملاحظہ کیجیے.
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بنوائے ہوئے
جا بہ جا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب بھی دل کش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ