اردو کی مقبول ترین پاکستانی شاعرہ پروین شاکر نے عورت کا دکھ اور کرب بیان کرنے، آرزوؤں اور امیدوں کے ٹوٹنے اور محبت و ایثار ،خلوص اور مرد سے وفا کے باوجود اپنے جذبات کی پامالی، اور رائیگانی کے احساس کو اس شدت سے اپنے اشعار میں سمویا کہ آج بھی پروین شاکر کی شاعری کو بہت پڑھا جاتا ہے اور خاص طور پر نوجوان لڑکے لڑکیاں ان کے اشعار یاد کرکے محافل میںسنانا پسند کرتے ہیں. پروین شاکر نے بلاشبہ عورت کے جذبۂ ایثار اور وفا شعاری کو اشعار کی لڑی میں نہایت خوبی سے پرویا ہے. خاص طور پر محبوب کی خوشی کے لیے ایک عورت کس طرح اپنے ارمانوں اور حسرتوں کو قربان کرتی ہے، یہ پروین شاکر کی اس غزل میںملاحظہ کیجیے. اس غزل کے اشعار کئی باذوق قارئین کی بیاض کا حصہ بھی ہوںگے.
غزل
کمالِ ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی
میں اپنے ہاتھ سے اس کی دلہن سجاؤں گی
سپرد کر کے اسے چاندنی کے ہاتھوں میں
میں اپنے گھر کے اندھیروں کو لوٹ آؤں گی
بدن کے کرب کو وہ بھی سمجھ نہ پائے گا
میں دل میں روؤں گی آنکھوں میں مسکراؤں گی
وہ کیا گیا کہ رفاقت کے سارے لطف گئے
میں کس سے روٹھ سکوں گی کسے مناؤں گی
اب اس کا فن تو کسی اور سے ہوا منسوب
میں کس کی نظم اکیلے میں گنگناؤں گی
بچھا دیا تھا گلابوں کے ساتھ اپنا وجود
وہ سو کے اٹھے تو خوابوں کی راکھ اٹھاؤں گی
سماعتوں میں گھنے جنگلوں کی سانسیں ہیں
میں اب کبھی تری آواز سن نہ پاؤں گی
جواز ڈھونڈ رہا تھا نئی محبت کا پروین
وہ کہہ رہا تھا کہ میں اس کو بھول جاؤں گی