تحریر: ارسلان سید
جنوبی کوریا میں صدر نے گذشتہ دنوں مارشل لاء کا نفاذ کیا مگر پھر اپوزیشن پارلیمنٹ میں متحرک ہوئی اور مشترکہ قرار داد منظور کرکے صدریون سیک یول کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا جس کے نتیجے میں صرف 6 گھنٹے بعد ہی مارشل لاء ختم کردیا گیا۔ یہ شاید جدید دور کی تاریخ کا مختصر ترین مارشل لاء ہے۔ تاہم یہ سلسلہ صرف یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ اپوزیشن نے صدر یون سیک یول کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ بھی کرلیا۔ یہ مثال صرف ترقی یافتہ ممالک میں ہی دیکھی جاسکتی ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں ایسے پارلیمانی احتساب کا تصور کرنا بھی محال ہے۔
جنوبی کوریا جس کی معشیت مضبوط ہے، اس کی کل جی ڈی پی کا 50 فیصد برآمدات پر انحصار کرتا ہے جس کی مالیت 644 بلین امریکی ڈالر ہے لیکن اقتصادی طور پر مستحکم معشیت کے ہوتے ہوئے بھی جنوبی کوریا کو مارشل لاء کا سامنا کرنا پڑا اور وہ ارسطو جو آج کل دعوے کرتے نہیں تھکتے کہ اقتصادی طور پر مضبوط ملک اندرونی طور پر کبھی سیاسی عدم استحکام کا شکار نہیں ہوتے، جنوبی کوریا کے حالیہ مارشل لاء نے ان کے مفروضوں کو غلط ثابت کردیا ہے۔ جنوبی کوریا کے صدر یوک سیک یول نے سرکاری ٹیلی ویژن پر خطاب میں مارشل لاء کا جواز روایتی حریف شمالی کوریا کی جانب سے یوکرین جنگ میں روس کی حمایت کرنے اور ممکنہ جارحیت کے خطرے اور اپوزیشن کے احتجاج کو قرار دیا۔ ( دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جنوبی کوریا کے صدر نے بھی وہی روایتی راگ الاپا کہ ‘احتجاج’ سے قومی سلامتی کو خطرہ ہے)۔
جب کہ اپوزیشن کی جماعت ڈیموکریٹ پارٹی کے صدر لی میونگ نے جنوبی کوریا کے صدر کا مواخذہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے جو کسی بھی مضبوط پارلیمانی جمہوریت کی نشانی ہے۔ اکیسویں صدی میں کوئی ملک تبھی اندرونی طور پر مستحکم ہوسکتا ہے جب وہاں کا جمہوری نظام مضبوط اور نظام انصاف ہر فرد کیلئے یکساں ہو، ورنہ ایسے معاشرے تقسیم ہو جایا کرتے ہیں۔ عراق، شام، افغانستان، لیبیا، سوڈان، مصر اس کی مثالیں ہیں، جہاں خانہ جنگی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مضبوط معشیت مستحکم جمہوریت کی ضمانت دے سکتی ہے، حالیہ تاریخ اس سوال کا جواب نفی میں دیتی ہے۔ اگرچہ جنوبی کوریا کو شمالی کوریا کی جانب سے جارحیت کا خطرہ ہے لیکن ابھی تک براہ راست تصادم کی نوبت نہیں آئی اور دونوں ممالک اپنی اقتصادی ترقی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ جنوبی کوریا میں بھی اپوزیشن لیڈر لی میونگ پر رواں سال قاتلانہ حملہ ہوچکا ہے، تاہم وہ محفوظ رہے۔ یون سیوک یول 2022 سے جنوبی کوریا کے صدر ہیں۔ وہ پیپلز پاور پارٹی کا حصہ ہیں اور اپنے حریف لی جے میونگ کو نہایت ہی کم پوائنٹس سے شکست دے کر صدارتی انتخاب جیتے ہیں۔ جنوبی کوریا کے صدر کیساتھ ساتھ اُن کی اہلیہ کو بھی مختلف تنازعات اور اسکینڈلز کی وجہ سے تنقید کا سامنا رہا ہے۔ اُن کی اہلیہ پر مبینہ طور پر مہنگے تحائف قبول کرنے کی وجہ سے تنقید ہوتی رہی ہے۔ جس کی وجہ سے گزشتہ ماہ صدر یون باقاعدہ معافی بھی مانگی تھی۔ لیکن پھر صدارتی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے صدر جنوبی کوریا یون سیک یول نے اپنی بیوی کے بد عنوانی کے الزامات پر خصوصی کونسل کی تحقیقات کے بل کو ہی ویٹو کر دیا۔ یہ حقیقت ہے کہ جنوبی کوریا کی عوام کے مجموعی سیاسی شعور نے مارشل لاء کو شکست دی ہے۔ وہاں جمہوری ادارے مضبوط ہیں، احتساب کا نظام رائج ہے، کوئی بھی ادارہ احتساب سے بالاتر نہیں۔ اور ظاہر ہے جنوبی کوریا کا مقابلہ جنوبی ایشیاء کے ترقی پذیر ممالک جن میں پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان، سری لنکا، نیپال اور مالدیپ شامل ہیں ہرگز نہیں کیا جاسکتا۔
ان ممالک میں جمہوریت نام کی چیز کا وجود ہی نہیں ہے، جمہوریت کے لبادے میں نیم مارشل لاء نافذ ہے، میڈیا سینسر شپ کی زنجیروں میں قید ہے، صحافت کا گلا دبانے کیلئے ریاست تمام وسائل بروئے کار لاتی ہے، عوام کے احتجاج کے حق کو طاقت کے ذریعے کچلا جاتا ہے، سیاسی کارکنوں کی لاشیں گرا دی جاتی ہیں، عوامی لیڈر کو قانونی مقدمات اور قید میں رکھا جاتا ہے۔
پاکستان کے الیکشن ایک مثال ہیں جس میں عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ مارا جاتا ہے اور انتخابی اصلاحات کا وجود ہی نہیں، اور جہاں ملک کی اعلی عدلیہ مقبول سیاسی پارٹی سے اس کا انتخابی نشان ہی واپس لینے کا فیصلہ سنا دیتی ہے، وہاں انتخابات کی شفافیت پر سوال کھڑے نہیں ہوں گے تو اور کیا ہوگا؟ جنوبی کوریا کی اپوزیشن نے تو عوام کے زور بازو پر اپنے صدر کو مارشل لاء ختم کرنے پر مجبور کردیا، ترکی میں جب فوج نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تو عوام سڑک پر موجود ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے، یہ سیاسی شعور کا اعلی ٰ درجہ ہے۔ اس کیلئے قومیں سالوں کا سفر طے کرتی ہیں، لیکن پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں 4 مارشل لاء لگے اور ہر دور میں نہ تو عوام نکلے اور نہ اپوزیشن آمروں کو جمہوریت کا قتل کرنے سے روک سکی، بلکہ رات کی تاریکی میں آمروں کیساتھ مل کر سازشوں کے ذریعے منتخب حکومتوں کو گھر بھیجا جاتا رہا، اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے لیکن اس بار طریقہ واردات بدل چکا ہے، پاکستان کے میڈیا، پارلیمنٹ، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو جنوبی کوریا کے مختصر مارشل لاء سے سبق سیکھنا چاہیے۔
(مصنّف گزشتہ نو سال سے بطور پروڈیوسر کرنٹ افیئرز میڈیا میں ذمہ داریاں نبھاتے رہے ہیں اور آج کل بطور فری لانس جرنلسٹ کام کررہے ہیں)