The news is by your side.

پراسرار حالات میں موت کا شکار ہونے والے شاعر مصطفی زیدی کی ایک مقبول نظم

تیغ الہ آبادی کے نام سے شاعری کا آغاز کرنے والے پاکستان کے سی ایس پی افسر نے بعد میں‌مصطفی زیدی کے قلمی نام سے شہرت پائی اور ان کی شاعری نوجوانوں‌میں خاصی مقبول ہوئی. مصطفی زیدی عاشق مزاج مشہور تھےاورپراسرار حالات ان کی موت کے بعد پولیس کو ان کی لاش جس فلیٹ سے ملی اس کے دوسرے کمرے میں ان کی محبوب شہناز گل بے ہوشی کی حالت میں موجود تھیں. مصطفی زیدی کی لاش ملنے کےبعد شہناز گل کو پولیس نے حراست میں لے لیا . ان پر مصطفی زیدی کے قتل کا شبہ کیا جارہا تھا لیکن عدالت میں شنہاز گل بے گناہ ثابت ہوئیں. خیال کیا گیا کہ مصطفی زیدی نے خودکشی کی ہے . مصطفی زیدی اپنے دور کے مقبول ترین نظم گو شاعر تھے.

شاعر مصطفی زیدی کی یہ نظم ملاحظہ کیجیے.

“تجرید”
زندگی میں ترے دروازے پر
اک بھکاری کی طرح آیا تھا

اپنے دامن کو بنا کر کشکول
تیری ہر راہ پہ پھیلایا تھا

ایک مرحوم کرن کی خاطر
مجھ کو تھوڑی سی ضیا بھی نہ ملی

دم بہ دم ڈوبتے سیارے کو
اپنے مرکز سے صدا بھی نہ ملی

دفعتاً ایک دھماکے کے ساتھ
کچے دھاگوں کے سرے چھوٹ گئے

انگلیاں چھل گئیں ارمانوں کی
یک بہ یک تار نفس ٹوٹ گئے

اور پھر ایک گھنا سناٹا
اور پھر رسم کہن کے گیسو

کچھ دلاسے کی زبانی باتیں
کچھ دکھاوے کے پرانے آنسو

2
کہر میں ڈوب گئی تھیں شمعیں

وقت ناراض تھا قسمت کی طرح
رات کے رخ پہ تھے زخموں کے نشان

میری مجروح حمیت کی طرح
اک خطرناک کگارے کے قریب

تجھ سے لڑنے کا ارادہ لے کر
میں نے مہروں کو سکھائی شورش

میں نے موجوں کے بگاڑے تیور
تو مگر آئی تو اک لمحے میں

نہ وہ تیور تھے نہ وہ آہیں تھیں
تیرے عارض پہ مرے آنسو تھے

میری گردن میں تری باہیں تھیں

+ posts
شاید آپ یہ بھی پسند کریں