The news is by your side.

ساغر صدیقی:وہ درویش شاعر جسے نشے کی لت نے بدترین انجام سے دوچار کیا

فقیر منش اور درویش شاعر کہلانے والے ساغر صدیقی کے بارے میں اکثر ہمیں ایسے واقعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں جن میں مبالغہ اور کچھ جھوٹ بھی شامل ہے. یہ درست ہے کہ ساغر صدیقی نشہ آور اشیاء استعمال کرنے لگے تھے اور انھیں لاہور میں داتا دربار کے احاطے میں مدہوشی کے عالم میں دیکھا جاتا تھا. وہ 19جولائی 1974ء کو داتا دربار کے قریب ہی ایک فٹ پاتھ پر مردہ پائے گئے تھے. ساغر صدیقی پر فالج کا حملہ بھی ہوا تھا جس میں ان کا دایاں ہاتھ ہمیشہ کے لیے بے کار ہو گیا تھا۔ نشےنے انھیں جسمانی طور پر انتہائی لاغر کردیاتھا اور وہ ہڈیوں کا ڈھانچا بن کر رہ گئےتھے۔ساغر صدیقی میانی صاحب کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

ساغر صدیقی 1928ء میں انبالہ میں پیدا ہوئے . بچپن میں بدترین غربت دیکھی ۔ محلے کے ایک بزرگ نے انہیں ابتدائی تعلیم دی۔ انبالہ چھوڑ کر تیرہ چودہ برس کی عمر میں امرتسر کی راہ لی اور لکڑی کی کنگھیاں بنانے والی ایک دکان پر ملازمت کر لی۔ اس دوران شعر گوئی کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ جلد ہی ساغر کی شہرت اور مشاعروں میں ان کی شرکت کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا.1944ء میں پہلی بار امرتسر میں ہونے والے ’’آل انڈیا مشاعرہ‘‘ میں کسی کی وساطت سے شرکت کرنے کا موقع ملا تو وہاں خوب داد پائی اورپھر شاعری ساغر کا وسیلۂ روزگار بھی بن گئی۔تقسیمِ ہند کے بعد ساغر امرتسر سے لاہور چلےآئے۔1947ء سے لے کر 1952ء کا زمانہ ساغر کے لیے سنہرا دور ثابت ہوا۔ اسی عرصے میں کئی روزناموں، ماہوار ادبی جریدوں اور ہفتہ وار رسالوں میں ساغر کا کلام شائع ہوتا رہا۔ فلمی دنیا تک رسائی پانے کے بعد ساغرنے کئی یادگار گیت لکھے مگر 1952ء کے بعد خراب صحبت نے انھیں نشے کاعادی بنا دیا۔ ساغر صدیقی بھنگ شراب، افیون اور چرس وغیرہ استعمال کرنے لگے۔ اسی عالم مدہوشی میں مشقِ سخن بھی جاری رہی اور ساغر نے غزل، قطعہ اور فلمی گیت لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔

یہاں ہم ساغر صدیقی کی محبت اور والد کی جانب سے انکار کا ایک واقعہ پیش کررہے ہیں جو مشہور ضرور ہے، لیکن اس میں کتنی صداقت ہے یہ نہیں کہا جاسکتا. کہتے ہیں کہ ساغر کو ایک لڑکی سے محبت ہوگئی. لیکن وہ ایک غریب گھرانے کی لڑکی تھی اور اس کے والد نان بائی تھے. والد نے ساغر کی پسند کو یہ کہ کر ٹھکرا دیا کہ ہم خاندانی لوگ ہیں اور کسی تندور والے کی بیٹی کو اپنی بہو نہیں بنا سکتے.اس لڑکی کی کی شادی پنجاب کے ضلع حافظ آباد میں ہوگئی لیکن وہ کام یاب نہ ہوسکی اور بعد میں ساغر کی محبوبہ اسے تلاش کرتے ہوئے داتا صاحب کے دربار تک آ گئی.لیکن اس زمانے میں تو ساغر کو نشہ ہی محبوب تھا. وہ نشہ میں اس قدر ڈوب چکے تھے کہ ان کی محبوبہ کو مایوس لوٹنا پڑا.

ساغر صدیقی کی شاعری رنج و غم اور حسرت و یاس میں ڈوبی ہوئی ہے اور ان کے اکثر اشعار اسی رنگ میں ہیں. ساغر کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے.

میں تلخیٔ حیات سے گھبرا کے پی گیا
غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا

اتنی دقیق شے کوئی کیسے سمجھ سکے
یزداں کے واقعات سے گھبرا کے پی گیا

چھلکے ہوئے تھے جام پریشاں تھی زلف یار
کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا

میں آدمی ہوں کوئی فرشتہ نہیں حضور
میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا

دنیائے حادثات ہے اک دردناک گیت
دنیائے حادثات سے گھبرا کے پی گیا

کانٹے تو خیر کانٹے ہیں اس کا گلہ ہی کیا
پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا

ساغرؔ وہ کہہ رہے تھے کہ پی لیجیے حضور
ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا

+ posts
شاید آپ یہ بھی پسند کریں