شمع اورشہزاد کے قتل نے پاکستان میں اقلیتوں اور خاص طور پر مسیحی قتل عام کے پس منظر کے حوالے سے سوچ کے بہت سے نئے زاویوں کو جنم دیا ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے بہت سے روشن خیال دوستوں کا خیال ہے کہ اگر پاکستان میں اقلیتوں کا قتل عام یونہی جاری رہا تو شاید پاکستان کی مشکلات میں بے انتہا اضافہ ہو جائے گا۔ پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ جاءے گا۔ مشکلات میں تھوڑا بہت اضافے کی حد تک توشاید یہ بات درست ہو لیکن وجود کیسے خطرے میں پڑے گا یہ کوئی نہیں بتاتا جبکہ میری ناقص رائے میں مغرب ایسے واقعات میں برابر کا مجرم ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ان کے لیے سفید اور سانولے یا سیاہ فام ہندوستانی مسیحی ایک جیسی اہمیت کے حامل ہیں؟ ہمارے برائے نام دیسی روشن خیالوں کی سوچ ان کی ناک تک محدود ہے۔ جو مغرب اپنی امداد کو پاکستان میں سزائے موت کے قانون سے مشروط کر سکتا ہے وہ اپنی امداد توہین کے قوانین ختم کرنے سے مشروط کیوں نہیں کرتا؟۔
ہمارے روشن خیال حلقوں کی طرف سے دانستہ یا غیر دانستہ تاثر کچھ ایسا دیا جاتا ہے کہ جیسے آسیہ بی بی جیسے دوسرے توہین کے ملزمان کو سزاؤں سے بچانے کے لیے مغرب پاکستان میں سزائے موت کے قانون کی مخالفت کر رہا ہے جبکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ توہین کے ملزمان کو پکڑنے کے لیے ریاست کے پاس قانون بھی موجود ہے اور انھیں فوری طور پر حراست میں بھی لے لیا جاتا ہےلیکن الزام لگنے سے مقدمہ درج ہونے اور حراست میں لیے جانے کے بعد تک جو لوگ انھیں قتل کرتے ہیں انھیں ریاست کی طرف سے کھُلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ اس تمام صورتحال میں مغرب کا محض سزائے موت کے قوانین کی مخالفت کرنا صرف اور صرف قاتلوں اور دہشت گردوں کے لیے مددگار ثابت ہو رہا ہے۔
صدام کوگٹر اوراُسامہ کو ایبٹ آباد سے ڈھونڈ نکالنے والوں کو کیا اس بات کا علم نہیں کہ مذہبی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی میں کس فکر کا کونسا گروہ ملوث ہے؟ جس بیل پر دہشت گردی کا پھل لگتا ہے اس کا ایک ہیڈ آفس برطانیہ میں بھی تو ہے۔ اور ظاہر ہے کہ جب دوسری طرف انھیں ’بہارِعرب‘ کو بھی خوش رکھنا ہوتو سرمایہ دارانہ نظام اوراس کی ملٹی نیشنلز کی سیل کے شور میں ان غریب سیاہ فام مسیحوں کی آوازیں کسے سنائی دیں گی جنھیں انگریز کی غلامی کاٹنے والا سماج آج بھی چوڑھا کہہ کر پکارتا ہے؟ جو بدبودار معاشرہ آج تک مسیحی عوام کے برتن اور بستیاں الگ رکھتا ہے وہاں انسانیت کیسے پنپ سکتی ہے؟ اس پر یہ دعوے کہ ہندوستان میں اسلام کی آمد سے شودر ختم ہوگئے۔ انھوں نے شودر کیا ختم کرنے تھے یہاں تو اکثر غیر شیعہ گھرانوں کے لوگ شیعہ حضرات کے گھر کا کھانا بھی نہیں کھاتے۔ بعض مقامات پر بریلوی کی مسجد میں دیوبند، وہابی یا دیوبند کی مسجد میں کسی دوسرے مسلک کا بندہ نماز پڑھ جائے توامام مسجد، مسجد کےغسل کو واجب قرار دے دیتے ہیں۔
کوٹ رادھا کشن واقعہ کے بعد امیر جماعت اسلامی پہلی مرتبہ کسی ایسے معاملے کی مذمت کے لیے کسی مسیحی کے گھر چل کر گئے۔ امیرِجماعت سراج الحق اگر پہلی مرتبہ کسی عیسائی کے گھر پرسہ دینے چلے گئے تو اس میں بہت سی وجوہات ہیں جن کا احاطہ کیے بغیر کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکتا۔
عرب اپنے ہی پالے ہوئے بعض عناصر سے آج خوف محسوس کر رہے ہیں۔ داعش، القائدہ، طالبان، لشکر جھنگوی، جنداللہ اور دیگر جہادی گروپ اس کی واضع مثال ہیں۔ جامعہ دہشت گردی میں امن و تبلیغ کا شعبہ دھیرے دھیرے غیر مقبول ہورہا ہے اور جامعہ کے اصل اغراض و مقاصد نمایاں ہو رہے ہیں۔ سراج الحق یا جماعت کے اس فیصلے کے مقاصد کے پیچھے میک اپ زدہ پرامن چہرے کو سہارا دینا بھی ہو سکتا ہے اور یہ سراج الحق کا ذاتی فیصلہ بھی ہوسکتا ہے۔ ان سبھی عوامل کا جاءزہ لینے کی ضرورت ہے۔ سراج الحق کی قیادت جماعت کی روایتی قیادت سے بہتر محسوس ہو رہی ہے لیکن یہ حقیقت بھی رد نہیں کی جا سکتی کہ جماعت اسلامی اور سعودیہ کی حکمت عملی اب کافی حد تک ان کے اپنے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہونے لگی ہے۔
فکری اعتبار سے سعودیہ اور داعش ایک ہی پیج پر ہیں۔ لیکن سعودیہ اس سے کس قدر خوفزدہ ہے یہ سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح سے سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد پرحملہ بھی اسی بات کا ثبوت تھا کہ جن سانپوں کو انھوں نے دودھ پلا پلا کر تربیت دی تھی وہ اب انھیں بھی ڈسنے لگے ہیں۔ فضل الرحمن پرحملے اور اسی طرح سے مفتی نعیمی کے داماد کا قتل، مذہب اور روشن خیالی کہیں نہ کہیں آپس میں متصادم ہو ہی جاتے ہیں۔ تاہم مذہب کو ہر بات پر اجتماعی رگڑا دینے کی بجائے قاتل اورمقتول کا ایک ہی فکر سے جڑے ہونا بھی اب کھل کر زیر بحث آنا چاہیے۔
باقی انگریزوں سے ان کے مفادات سے ہٹ کر انسانی حقوق کا مطالبہ یا ان سے اس ضمن میں بہت زیادہ توقع رکھنا بھی بے سود ہے۔ نسل پرستی کل بھی انسانیت کے لیے مذہب سے سے بڑا چیلنج تھی اور حالات آج بھی کچھ زیادہ مختلف محسوس نہیں ہوتے۔ اگر کوئی چیز انسانیت کے لیے مذہب اور نسل پرستی سے بھی زیادہ خطرناک ہے تو وہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جسے انسانی حقوق صرف ہتھیاروں کی فروخت اور دوسروں کے وسائل ہڑپنے کے وقت یاد آتے ہیں۔