دنیا بھر کے ڈاکٹراورسائنسدان سرطان کی قطعی وجوہات بتانے سے قاصر ہیں سروے رپورٹس کی بنیاد پرتمباکو نوشی کو پھیپھڑوں اور پان، گُٹکا، چھالیہ یا تمباکو چبانے کو منہ کے سرطان کی وجہ بتایا جاتا ہے۔ پان گُٹکا کے بارے میں زیادہ علم نہیں کہ ہمارے خاندان یا میرے ارد گرد کے ماحول میں ایسے بہت کم لوگ مجھے ملے جو اس کے عادی ہوں تاہم سگریٹ نوشی کی بُری لت مجھے چھٹی ساتویں جماعت میں ہی لگ گئی تھی۔ میرے ذاتی مشاہدے میں کم ازکم ایک درجن لوگ ایسے رہے جو ایک طویل مدت یعنی چالیس پچاس سال تک سگریٹ نوشی کے عادی رہے مگر انھوں نے اپنے ہم عصروں اور دس بیس سال کم عمر کے لوگوں کی نسبت کافی صحت مند زندگی بسر کی۔ ان میں سے کسی کی موت بھی کینسر یا کسی دل کی بیماری سے نہیں ہوئی اورکچھ آج بھی زندہ ہیں۔ انہی میں سے ایک میرے بڑے ماموں ہیں جو پتا نہیں کب سے سگریٹ نوشی کے عادی ہیں مگر اللہ کے فضل سے نوے کا ہندسہ کراس کرچکے ہیں اور اپنے تمام چھوٹے بہن بھائیوں کی نسبت بہتر حالت میں ہیں۔ صبح سویرے اُٹھ کر زمینوں کا چکر لگاتے ہیں۔ سات یا پھر حد ہے کہ آٹھ بجے تک سو جاتے ہیں۔ دو یا تین وقت کے کھانے مین اکثر ایک روٹی سے زیادہ نہیں کھاتے جبکہ ان سے آٹھ درجے چھوٹے بھائی یعنی میرے چھوٹے ماموں کم و بیش سات آٹھ برس سے موٹاپے کی بیماری کی وجہ سے چلنے پھرنے سے قاصر ہو چکے ہیں۔ واضع رہے کہ اس تمہید کا مقصد طبعی طور پر سگریٹ نوشی کو درست ثابت کرنا ہرگز نہیں ہے تمباکو نوشی صحت کے لیے مضر ہے یہ بات درست ہو نہ ہو مگر یہ پیسے کا زیاں تو بہرحال ہردو صورت میں ہے۔ دراصل اس ساری تفصیل و تمہید کا مقصد کچھ حساس معاشرتی پہلووں پر توجہ دلوانا ہے۔
مجھے یہ کہنے میں کچھ عار محسوس نہیں ہوتا کہ کم عمری میں سگریٹ نوشی، جھوٹ سے نفرت اوراپنا آپ نہ چھپانے کی عادت کے سبب میں نے خود کو ہمیشہ اپنے خاندان کے بدنام اور ناپسندیدہ بچوں میں پایا۔ کسی کے بارے میں آج کچھ نہ کہوں گا لیکن ’بد اچھا بدنام بُرا‘ اس بات کی حقیقت سے مجھ سے زیادہ کوئی واقف نہ ہوگا۔ یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ حقیقت صرف مجھ پہ القاء نہیں بلکہ نہ جانے میرے جیسے اور کتنے ہزاروں لاکھوں نوجوان مجھے سے پہلے، میرے ساتھ اور شاید میرے بعد بھی انھی اندھے رویوں کا شکار بنتے رہیں گے۔
بزرگوں اور سماج کی کم فہمی اور ناعاقبت اندیش رویے نسلوں کے بگاڑ میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں انہی رویوں کے تابع اکثر دوست نو عمری میں سگریٹ چھپا کر پیتے اورمجھ پر معترض رہتے کہ تم بڑوں کے سامنے سگریٹ کیوں پیتے ہو؟ میں انھیں ہمیشہ کہتا کہ یار جھوٹ بولنے سے بہتر ہے کہ ان کے سامنے پی لی جائے مگر وہ اس کے جواب میں فرماتے کہ نہیں بڑوں کا احترام لازم ہے۔ مگر میں ان کی اس منافقانہ تاویل سے کبھی قائل نہ ہوا۔ آج چالیس برس سے اوپر کی عمر میں بھی یہی مانتا ہوں کہ ان کی وہ تاویل منافقت، خود سے چوری، اپنے بڑوں سے دھوکے اور جھوٹ کی پہلی سیڑھی جیسی تھی۔ ہمارا معاشرہ اور ہمارے بڑے ہمیں جھوٹ کی لت کیسے لگاتے ہیں اس کا اندازہ انہی چھوٹی چھوٹی باتوں اور مثالوں سے کیا جا سکتا ہے اور حد تو تب ہوتی تھی جب بعض بزرگ بھی کسی نوجوان کی تعریف میں سینہ پھلا کر یہ کلمات کہہ ڈالتے تھے کہ ’میں جانتا ہوں کے وہ سگریٹ پیتا ہے مگر میرے سامنے نہیں پیتا، دیکھا وہ کتنا فرمانبردار ہے۔ اسے کس قدر بزرگوں کا احترام ہے اور کچھ ایسے بھی ہیں کہ نہ چھوٹے بڑے کا لحاظ سب کے سامنے سگریٹ لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں‘۔ شکر ہے کہ مجھے نہ کسی نےمنافقت سکھائی اور نہ میرے کسی بڑے نے اسے میرے سامنے رول ماڈل بنا کر پیش کیا۔
آج اگر امریکہ دنیا پر راج کررہا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ مونیکا اور کلنٹن کے جنسی تعلقات جیسا گندہ سچ بھی بول لیتے ہیں بلکہ ان کی کامیابی اس میں ہے کہ وہ کم از کم اپنے آپ سے جھوٹ نہیں بولتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے مذہب میں شراب کلیتاًحرام سمجھی جاتی ہے لیکن تمباکو نوشی کے بارے میں ہمارے اکثر لکیر کے فقیر علماء بھی خاموش رہتے ہیں۔ لہذا بعض ایسے لوگ بھی دیکھے جو شراب کو حرام سمجھ کر نہیں پیتے تھے مگر یہ کہہ کر چرس پی لیا کرتے تھے کہ یہ فقیری دھواں ہے۔ تاہم اپنے طور پر رمضان میں چرس بھی چھوڑ دیا کرتے تھے۔ کبھی پوچھو کہ باقی گیارہ ماہ تمھیں مذہب کیوں یاد نہیں آتا تو کہتے کہ احترام رمضان ضروری ہے۔
صبح صبح فیس بک پرایک تصویر دیکھی جس میں افتخار چوہدری اپنے دو ساتھی ججوں کے ہمراہ شراب کا گلاس ہاتھ میں تھامے بیٹھے ہیں۔ ایک جج کے ہاتھ میں شراب کی بوتل ہے۔ تصویر کافی جعلی محسوس ہوتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر کل کی تاریخ لکھنے والے منافق نہ ہوئے تو وہ میرا نام افتخار چوہدری کے چند ابتدائی نقادوں میں ضرور لکھیں گے کہ جتنے تواتر اور حوالوں کے ساتھ میں نے ان پر تنقید کی شاید ہی کسی اور کالم نویس نے کی ہو۔ مجھے نہیں پتا کہ افتخار چوہدری یا کوئی دوسرا شراب نوشی میں ملوث ہے یا نہیں۔ لیکن کیا اچھائی اور برائی کو ناپنے کا یہی ایک پیمانہ رہ گیا ہے؟ جناب افتخار چوہدری نے جو اپنے عہد میں اس ریاست میں قانون اورانصاف کے ساتھ ظلم و زیادتی کی؟ کیا وہ ان کے شراب پینے سے چھوٹا گناہ ہے؟ یقینا ان کے کسی بھی ذاتی فعل کی نسبت ان کے یکطرفہ انصاف کے گناہوں کے اثرات جنرل ضیا کے گناہوں کی طرح اس سماج پر آئندہ کئی نسلوں تک اثرانداز ہوتے رہیں گے۔
تاہم سوچنے کی بات یہ ہے کہ منافق سماج میں مذہبی بلیک میلنگ اسقدر مقبول اورحاوی ہو چکی ہے کہ غیرمذہبی لوگ بھی کسی ثابت شدہ اسفل الاسافلین کو قابل نفرت استعارہ بیان کرنے کے لیے فوٹو شاپ کا سہارا لے کر ہاتھ میں شراب کے گلاس تھما دیتے ہیں جبکہ شراب اور سگریٹ سے دور بہت سے مولوی زنا اور قتل کے مقدمات میں گرفتار ہوچکے ہیں پتا نہیں ہم کسی کی اچھائی یابرائی کا تعین شراب اور تمباکو نوشی سے کرنا کب چھوڑیں گے اورجھوٹ کی پہلی سیڑھی کو کب توڑیں گے؟۔