The news is by your side.

کیا یہ پیپلز پارٹی کا یوم تاسیس تھا؟

ٹھیک سے سال یاد نہیں مگروہ انیس سو بیاسی یا تراسی کی سردیوں کی ایک دوپہر تھی ہمارے وسطی پنجاب کے گاؤں چک نمبر اٹھارہ میں دو چارپائیوں پرکوئی دس بارہ جوان اپنے ایک ہاتھ میں جوتا تھامے بیٹھے تھے۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد شور اُٹھتا تھا “مار، مار ہورزورنال مار” پھر کوئی بولتا اب میری باری ہے اور پھرمختصر وقفے کے بعد وہی شور اٹھتا مارمار زور سے مار”پھر آواز آتی “نئیں اس پرتھوک پھینک اور پھرجوتا مار” ۔ میں کوئی دس گز کے فاصلے پرکھڑا تھا دور سے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کس چیز کو مارنے کی کوشش کر رہے ہیں اوروہ چیز مرکیوں نہیں رہی تجسس میں بے ارادہ قدم اٹھتے گئے اور میں ان کے قریب پہنچ گیا۔ ان کے گھیرے کے درمیان کچی زمین پر کوئی ایک ڈیڑھ انچ کی چھوٹی سی تصویر کا اخباری تراشہ پڑا تھا۔ تصویر جنرل ضیاء کی تھی نوجوان باری باری اس پر تھوک پینکتے، جوتا مارتے اور جب تک تصویر پھٹ کر مٹی میں غائب نہ ہو جاتی تب تک یہ عمل جاری رہتا۔ اور یوں وہ ہر روز جنرل ضیاء کوجان سے مارتے۔ یہ ان کی جنرل ضیاء سے نفرت اور بھٹوصاحب سے محبت کا اظہار تھا۔

نوجوانوں کی جنرل ضیاء سے کوئی ذاتی دشمنی نہ تھی ان میں سے کسی کو بھی جنرل ضیاء نے نہ کوڑے مارے تھے اورنہ ہی جیل بھیجا تھا۔ یقینا اس نفرت کا اصل محرک پاکستان کے مقبول ترین لیڈر کی پھانسی اوراس کی محبت میں سیاسی جدوجہد کرنے اور جیل جانے والے ان کے اپنے ڈاکٹررضا عسکری اوران جیسے سینکڑوں دوسرے کارکن تھے۔

ندیم فاروق پراچہ نے اپنے کالم میں لکھا کہ جنرل ضیاء کے دورہ سندھ کے موقعہ پر کسی نے کتے پر جنرل ضیاء لکھ کر اسے جنرل ضیاء کے اسکواڈ کے آگے سے گزار دیا تھا۔ پھر ایک شخص درخت سے کودا اور سیدھا جنرل ضیاء کی مرسیڈیز کے سامنے کھڑا ہوا اوراپنی دھوتی اٹھا کر بولا “بھلی کر آیا، بھلی کر آیا”۔ آج جب پیپلزپارٹی کے جیالوں کو تحریک ِانصاف اورعوامی تحریک والوں کو اخلاقیات کا سبق دیتے دیکھتا ہوں تو رونے کے ساتھ ہنسی آتی ہے۔

جنرل ضیاء نے اپنے دورِآمریت میں بہت سے غلط فیصلے کیے۔ کچھ فیصلے ایسے تھے کہ جن کو ملک میں جاری فرقہ وارانہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی بنیاد مانا جاتا ہے مگربھٹو کی پھانسی کا فیصلہ وہ ہے کہ جس کی وجہ سے لوگ آج بھی اس سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ کوئی فخریہ انداز میں یہ بتاتا ہے کہ اس نے اور اس کے دوستوں نے ضیاء کی قبر پر کھڑے ہو کر پیشاب کیا تھا۔ جو کہ بہرحال کسی صورت درست فعل نہیں ہے مگر جمہوری لیڈر کو پھانسی دینے والی نفرت کی آگ اسے بھی درست سمجھتی ہےتوکوئی ضیاء کی قبرپرلیٹے آوارہ کُتے کی تصویر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر کے اپنا غصہ ٹھنڈا کر رہا ہے۔

مگر افسوس اس بات کا ہے کہ نفرت کی اس طویل داستان سے خود پیپلز اپرٹی کی قیادت نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ جنرل ضیاء سے لوگ زاتی یا براہ راست متاثر نہیں ہورہے تھے مگرآج نواز شریف کے فیصلوں سے لوگ براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔ جنرل ضیاء نے ملک میں مہنگائی کا طوفان کھڑا نہیں کیا تھا۔ سیاسی کارکنان بھٹوکی محبت میں جلوس نکالتے اوروہ اپنےغیرآئینی اقتدار کے دفاع میں ریاستی طاقت استعمال کرکے انھیں جیلیں بھیجتا، تشدد کرواتا، کوڑے لگواتا یا پھران کی زبانیں ہمیشہ کے لیے خاموش کروا دیتا۔ کل جب ماڈل ٹاون میں پنجاب پولیس کے ہاتھوں چودہ لوگ مارے گئے تو وہاں ابھی تک برائے نام جمہوری تک حکومت کے خلاف کسی قسم کی عملی جدوجہد کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا مگر زرداری صاحب مقتولین کو دلاسہ اور پرسہ دینے کے بجائے جمہوری حکومت کو سہارا دینے جاتی عمرہ پہنچ گئے۔ زرداری صاحب دوسروں کو سیاست سکھاتے ہیں مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ ان کے اس ایک فیصلے کی وجہ سے عوام کے دلوں میں ان کے لئے کس قدر شدید نفرت پیدا ہوئی۔ وہ جاتی عمرہ اس جمہوری حکومت کو سہارا دینے گئے جو محض چارسیٹوں کی دھاندلی کی غیرجانبدار تحقیقات سے گھبرا رہی ہے۔ آج انہیچار سیٹوں پربروقت تحقیقات نہ کروانے کی وجہ سے نواز لیگ کے سارے مینڈیٹ پرسوالیہ نشان لگ چکا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ عمران خان کی طرف سے دھاندلی کی تحقیقات کے مطالبے نے سب کو ننگا کر کے رکھ دیا ہے۔ حکومت اور اس کے اتحادیوں کا تحقیقات سے فرارشکوک وشبہات کو یقین میں بدل رہا ہے۔ ایک ستر کے انتخابات کو چھوڑ کر باقی تمام جھوٹ کا پلندہ محسوس ہوتے ہیں۔ ہردوسرا شہری یہی محسوس کررہا ہے کہ جیسے پاکستان میں انتخابات محض دنیا کو دکھانے اور لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے کروائے جاتے ہیں۔ یہ سوچ جمہوریت کے مستقبل کے لیے کتنی خطرناک ہےعقل ودانش سے پیدل دو نمبر جمہوریت پسند اسے سمجھ ہی نہیں سکتے۔ ان لوگوں کے نزدیک عمران خان کے چیخنے چلانے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ لیکن اگر دو ہزار تیرہ کی انتخابی دھاندلی کی شفاف تحقیقات نہ ہو سکیں تو پاکستان کی اکثریت کا جمہوریت سے اعتماد ہمیشہ کے لیے اُٹھ جاءے گا۔ اور اس کا فائدہ کسی اور کو نہیں بلکہ براہ راست داعش جیسی جہادی تنظیموں کو ہوگا۔ آصف زرداری اورنوازشریف کے حامی یہ فیصلہ کر لیں کہ انھیں پاکستان کو کس طرف لے کر جانا ہے۔ صاف شفاف تحقیقات کے بغیر پاکستان میں جمہوریت کا کوئی مستقبل نہیں۔ دھاندلی کی تحقیقات کامعاملہ اتنا آگے بڑھ چکا ہے کہ اب اگرعمران خان خود بھی تحقیقات کے مطالبے سےدستبردار ہوجائے تو وہ بھی موجودہ انتخابی نظام پر لوگوں کا اعتماد بحال نہیں کر سکے گا۔

یوم تاسیس کے حوالے سے مزید صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ یہ کسی طور بھی پیپلز پارٹی کا یوم تاسیس نہیں ہو سکتا۔ دوستوں کا خیال ہے کہ میاں منظور وٹو اور ان کی صاحبزادی پیپلزپارٹی کی پنجاب میں بحالی کے لیے دن رات محنت کر رہے ہیں۔ انھوں نے اپنا گھر بھی پیپلز پارٹی کا سیکریٹیریٹ بنا دیا ہے۔ مگر پیسے والوں کا پیسہ لگا کر قیادت سنبھلانا بھی کونسا نیا عمل ہے؟ باقی پیپلز پارٹی پنجاب میں ایک ہزار وٹو بھی لے آئے تو جب تک آصف زرداری اپنا موجودہ غیرعوامی، غیر مقبول، غیر معقول اور نواز دوست طرز سیاست ترک نہیں کرتے تب تک کم از کم پنجاب میں پیپلز پارٹی کی بحالی کا کوئی امکان نہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں