The news is by your side.

سانحۂ پشاور: نوحۂ کلُ من الیہا فان

گذشتہ کئی مہینوں سے قلم اورتحریرسے رشتہ ٹوٹا ہوا تھا اور اس ترکِ تعلق کی بناء یہ احساس تھا کہ میری تحریریں جن کو سوشل میڈیا پر بے پناہ پذیرائی ملتی ہے سب کی سب لاحاصل ہیں کیونکہ ہمارے معاشرےنے اپنی اصلاح نہ کرنے کی قسم کھارکھی ہے۔ احباب کا بے پناہ اصرار بھی قلم اٹھانے اورمعاشرے کا مرثیہ لکھنے پرمائل نہ کرسکا لیکن کل پشاور میں ہونے والے خون آشام واقعے اور اسکے بعد ہونے والے فیصلوں نے بالاخرخاموشی توڑنے پر مجبورکردیا کہ معاشرے کا نوحہ پڑھنا میرا پیشہ نہیں بلکہ مجبوری ہے کہ دل کی چھبن مجبور کرتی ہے کہ ہردور کے یزید کو للکارتے رہنے کا درس بچپن سے تربیت میں ملا ہے۔

ماڈل ٹاؤن کی لاشوں سے شروع ہونے والی ناکام سیاست کو پشاور کی معصوم لاشوں کی آڑ میں اختتام پذیرہونے کا انتہائی مناسب موقع مل گیا۔ وہ لوگ جو اس ملک میں جنگل کے شیرکی طرح انقلاب اورتبدیلی کی دھاڑیں مارتے ہیں درحقیقت وہ کچھ مخصوص عناصر کے مفادات کا تحفظ کررہے ہوتے ہیں اوروقتِ ضرورت نظریۂ ضرورت کے تحت استعمال ہوتے ہیں۔

پشاورکے افسوسناک واقعے کے بعد تین اچھے فیصلے سننے کو ملے ایک سزائے موت پرعملدر آمد ،، دوسرا نیشنل سیکیورٹی پلان اورتیسرا وزیرِاعظم کے خلاف جاری دھرنے کا اختتام ،، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان تین اچھے فیصلوں میں سے برآمد کچھ بھی نہیں ہوگا کیونکہ فیصلوں پر عمل در آمد کے لئے ہمت کی ضرورت ہوتی ہے جسکا فقدان فیصلہ کنندگان میں باآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔

اس وقت جنگل اورپارلیمنٹ کے شیروں کے تیوردیکھ کرایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپریشن ضربِ عضب اورخیبر ون آپریشن میں تیزی آئے گی بلکہ اس کا دائرہ کار شہروں تک وسیع بھی ہوسکتا ہے لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ یہ ایک پرشر ککر ہے جس میں سے برآمد کچھ بھی نہیں ہونا اوراس ناامیدی کی صرف ایک وجہ ہےکہ جنہوں نے حالات سدھارنے ہیں ان میں سے بہت سے حالات خراب ہونے کے ذمہ دار ہیں۔

ہم اپنی 67 سالہ تاریخ میں اپنے قومی مجرموں اور قومی مسائل کا تعین کرنے میں ناکام رہے ہیں اوراس کی بنیادی وجہ صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ جن ہاتوں نے انصاف کرنا ہے انہیں آستینوں سے لہو ٹپک رہا ہے۔

اہل ستم سے معرکہ آراء ہے اک ہجوم
جس کو نہیں ملا کوئی سردار کچھ سُنا

قلم کار، صحافی، مفتی، سیاستدان، مجاہد، منصف اورعوام سب کے سب بے حس، سفاک اورپیشہ ورہوگئے ہیں اوران سب کا ماننا یہ ہے کہ ملک اور قوم جائے بھاڑ میں ہمارا کام چلنا چاہیے۔ اب مجھے یقین ہے کہ اس جملے پر بہت سے محبِ وطن پاکستانی مجھ سے ناراض ہوجائیں گے لیکن میں اپنے موقف کی حمایت میں صرف ایک مثال دینا چاہوں گا۔

کل پشاور کے سانحے کو قومی سانحہ کہا گیا پوری قوم رنج و الم میں ڈوب گئی رو رو کر اس قوم نے فیس بک کو آنسوؤں سے شرابورکردیا لیکن آج کا دن جو کہ یومِ سوگ تھا کہیں بھی قومی سوگ کی کیفیت نظرنہیں آئی یہاں تک کہ حد یہ ہوئی کہ کراچی کے ایک علاقے میں دکانیں بند کرانے کے لئے نامعلوم افراد کو سڑکوں پر آنا پڑا (یہ واقعہ میرا آنکھوں دیکھا ہے)۔

جو بھی ہو تم پہ معترض اس کو یہی جواب دو
آپ بہت شریف ہیں ، آپ نے کیا نہیں کیا ؟

جب تک یہ قوم نا معلوم افراد اور معلوم دہشت گردوں سے ڈرتی رہے گی اور اپنی حالت خود بدلنے بجائے آسمانوں سے ’ فرشتوں‘ کے نزول کا انتظار کرتی رہے گی ، نا تو یہ ملک بدلے گا نہ ہی اس کے عوام کی تقدیر۔ آزادی اورانقلاب سے مقدس لفظ ایسے ہی رسوا ہوتے رہیں گے اور خون آشام درندے ایسی ہی وارداتیں کرتے رہیں گے۔ رہ گئے ہم اہلِ قلم تو ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہم معاشرے کی ابتری پرچیخ چیخ کر اپنے سینے چھیل لیتے ہیں لیکن ہماری صدا نقارخانے میں طوطی کی آواز بن کررہ جاتی ہے لیکن پھربھی ایک امید ہمیں اکساتی رہتی ہے کہ یہ برا وقت ہے گزر ہی جائے ۔ دعا ہے کہ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے اچھا وقت بھی آتا دیکھیں جس کی روداد ہم اپنے بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ ایک دور تھا کہ جب پاکستان امن کا گہوارہ تھا۔

میں اور مجھ جیسے بہت سے ستم رسیدہ آشفتہ سروں کی فکری تربیت حکیمِ وقت جون ایلیاء نے کی ہے، ہم سے قبل وہ اس ملک اورمعاشرے کی درماندگی کا نوحہ کرتے کرتے اس جہان سے گزرگئے اورایک دن ہم بھی یہی نوحہ کرتے کرتے گزرجائیں گے۔

لمحہ لمحہ پڑھا کرے انسان
نوحۂ کلُ من الیہا فان

شاید آپ یہ بھی پسند کریں