The news is by your side.

سب اچھا ہے

حکومتی ارکان اور اپوزیشن والے عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنوں سے پریشان ہیں عمران خان اشتعال انگیز بیانات دے رہے ہیں ، یہ جمہوریت کیلئے بہت ہی بڑا سانپ ہے، اپوزیشن لیڈر یہ کہہ رہے، صاحب اقتدار جو لوگ ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ ان دھرنوں سے عوام پریشان ملک معاشی طور پر سب سے پیچھے چلا گیا ہے۔

ہمارے سیاست دان بیشتر آپ کو بزرگ اور ضیف ملیں گے کیونکہ بڑھاپے میں حافظہ جواب دے جاتا ہے، جب انسان 60سال کا ہوجاتا ہے تو ماضی 50فیصد بھول جاتا ہے باقی 50فیصد صرف اس کے مفادات کے ہوتے ہیں یہی کام ہمارے سیاست دانوں کا ہے،آصف علی زرداری جب صدر تھے تو اس وقت نواز شریف اور ان کے ہونہار رفقاء نے بھی لانگ مارچ کیا تھا تو کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ اس وقت جمہوریت نہیں تھی۔

کیا فوجی حکومت تھی اور جمہوریت صرف (ن) لیگ کی ہے آپ حکومت سے بہتر تو فوجی حکومت رہی ہے اب (ن) لیگ اور ان کے رفقا تو لانگ مارچ اور دھرنوں پر کیوں اعترازہے ، طاہر القادری کے خلاف اشتعال پھیلانے کا مقدمہ قائم کیا گیا، زرداری دور کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے صدر پاکستان زرداری کوسڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں کی تھیں، کیا وہ اشتعال کے زمرے میں نہیں آتا؟

اور مزے کی بات دیکھیں قارئین گرامی یہ اپنی اولادوں کے بہتر مستقبل کیلئے اور آپ کی اولادوں کو اندھیروں میں ڈوبنےسے بچانے کیلئے سب ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے ہیں، کوئی اپنی زمینیں بچانے کیلئے آگیا ہے، کچھ اپنے شوگر ملز کی بقا کیلئے میدان میں آگئے ہیں، کوئی اپنے مدرسے بچانے آگیا ہے، کچھ اپنی فیکٹریاں بچانے آگئے ہیں، کچھ ناتواں تانگہ پارٹیوں کے سربراہ مستقبل کی سیاست کو اجاگر کرنے آگئے ہیں۔

غرض جس کو موقع مل رہا ہے وہ جمہوریت کے آگے کھڑا ہو کر اسے بچاریا ہے۔ کیا آپ قارئین ہماری تحریر کو ماضی کے حوالے سے دیکھیں تو اس میں رتی برابر عمران یا طاہر القادری کی محبت نظر نہیں آئے گی کہ ہم قاری کے ہیں اور لوگ ہمیں ایماندار دیکھنا چاہتے ہیں، صحافی کا تعلق اپنے قاری سے ہوتا ہے۔اپنے مفادات کیلئے، سیاست دانوں سے نہیں۔

اعتراز حسن ایک قابل وکیل ہیں ان کے چاہنے والے سب ہیں مگر وہ بھی اس نام نہاد جمہوریت کو سنبھالے کھڑے ہیں کہ اس کا سائبان نہ گرجائے جبکہ یہ سب اصولی سیاست دان ہیں ، جس کی زندہ مثال یہ ہے 19اپریل 1977میں بھٹو مرحوم کی فیڈرل سیکیورٹی فورس ، پنجاب فورس ، نتھ فورس نے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین پر حملہ کیا اور اس حملے کی صورت میں پنجاب اسمبلی کاتو جو حال ہوا اس کو رہنے دیں لاشیں گریں زخمیوں سے اسپتال بھرگئے اور قرب و جوار کے علاقوں میں اخبارات دفاتر میں پولیس گھس گئی ۔

جب ظلم بڑھا تو اس نوجوان جس کا نام اعتراز احسن تھا احتجاجی طو رپر استعفی دے دیا آج اس ناکارہ جمہوریت کیلئے میرے قابل احترام اعتراز احسن بھی اس کی حفاظت کا جھنڈا لئے کھڑے ہیں کیا میں اورآپ مان لیں کہ جناب اعتراض احسن بھی اب عمر رسیدہ ہوگئے ہیں، ادھر سابق رہنماءتحریک انصاف جاوید ہاشمی نے تحریک انصاف چھوڑی اور اسمبلی سے اس بات پر ناراض ہو کر استعفی دیا کہ چودہ ماہ میں حکومت عوام کے مسائل حل نہ کرسکی اور پھر آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑا تاکہ تحریک انصاف کا قرض نہ رہے اور الیکشن ہار گئے یہ سب عمررسیدہ ہونے کی نشانیاں ہیں۔

اب تو زمانے کی قدریں بدل گئی ہیں، لوگ اب سیاسی جالوں میں نہیں پھنسے گے، وہ زمانے گئےجب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے اب تو لوگ حقیقی دنیا میں رہتے ہیں، یہ بات دوسری ہے کہ تعلیم یافتہ لوگ خاموش ہیں اور وہ ان سیاست دانوں کی حرکتوں پر ماتم نہیں کرتے بلکہ ہنستے ہیں مگر ہمارے سیاست دان صرف میں زمانوں کی رٹ لگا رہے ہیں ایسے ایسے بیانات اخبارات اور ٹی وی میں آتے ہیں کہ انہیں پڑھ کر ہنستے ہنستے برا حال ہوجاتا ہے، جب ہی تو آج کے کامیڈین روزگار کی وجہ سے خاصے پریشان ہیں۔

لوگ صبح اخبار پڑھ کر تازہ دم ہوجاتے ہیں اس کے بعد کام پر جاتے ہیں وہاں بھی چینلز اپنا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں، چھوٹی سی مثال دیتے ہیں کہ (ن) لیگ کے سعد رفیق کہتے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے واقعہ سے میاں نواز شریف کا کیا تعلق؟ جس روز یہ واقعہ ہو اس روز میاں نواز شریف جہاز میں تھے۔

جناب آپ اس کھٹا را ریلوے کو چلالیں آپ کیلئے یہی سب سے بڑا کارنامہ ہے، کیونکہ آپ کے نواز شریف کو1999میں جب گھر بھیجا گیا تھا تو معاف کیجئے گا اس وقت پرویز مشرف بھی جہاز میں سوار تھے جبھی تو بادام اتنے مہنگے ہونے کے باوجود ہاتھوں ہاتھ بک رہے ہیں کہ یہ حافظے کیلئے بہت اچھے ہوتے ہیں۔

سعد رفیق صاحب آپ سے گزارش ہے کہ آپ بھی بادام استعمال کریں اور آپ کے نظریے کے تحت تو پرویز مشرف بلکل ہی بے قصور تھے، پھر یہ ان کے خلاف کورٹ کچہری کیسی؟ آج کے نوجوان عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنوں میں اپنے بہتر مستقبل کیلئے جوش و خروش سے شرکت کرتا ہے۔

اب تو یہ وقت بتائے گا کہ ان کے مستقبل کا فیصلہ واقعی ان کے حق میں ہوگا مگر وہ تبدیلی چاہتے ہیں، ان باریوں سے نوجوانوں نسل بھی تنگ آگئی ہے، اسی لئے سیاست دان خوفزدہ ہیں، لہٰذا وہ بھی نوجوان نسل کو آگے لے کر آئے ہیں جن میں بلاول زرداری،، مریم نواز، اور حسن نواز قابل ذکر ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ نوجوان نسل ان نوجوانوں کا کہاں تک ساتھ دیں گے کیونکہ پارلیمینٹ میں بھی بوڑھے سیاست دانوں نے دھرنا دے رکھا ہے جن میں جاگیردار، سرمایہ دار، وڈ یرے ، پیر ،ملّا۔ سب ایک دوسرے پر اپنی بقاءکیلئے جان دیئے جارہے ہیں جبکہ دلوں میں رنجشوں کے پتھر بھرے ہوئے ہیں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کررہے ہیں۔

مگر آج کے نوجوانوں کے خوف نے انہیں ایک کردیا ہے، سب جمہوریت کا جھنڈا پکڑے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کررہے ہیں اب انہیں اپنی اولادوں کے مستقبل کی فکر کھائے جارہی ہے جبکہ آج سے دس سال پہلے تک یہ بڑے آرام سے خوشحال زندگی کے مزے لوٹ رہے تھے، بچے باہر اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے تھے اور یہاں عوام کے بچوں کی تعلیم کا کوئی پرسان حال نہیں تھا، اب یہ پریشان ہیں۔

میں نے کئی نوجوانوں سے پوچھا کہ یہ جو نوجوان سیاست دان آئے ہیں کیا انہیں ووٹ دو گے؟ تو اکثریت نے ہمیں بیوقوف اور پاگل سمجھتے ہوئے ٹال دیا مگر ان کے چہروں سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ہماری عمر کو دیکھتے ہوئے ان نوجوانوں نے یہ جملہ کہا کہ بڑے صاحب نکلو پتلی گلی سے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے سوئی ہوئی قوم کو جگا دیا ہے لوگوں نے خاموشی کی زنجیر کو توڑ دیا ہے، عمر رسیدہ عمران کی پالیسوں سے خوش ہیں اور نوجوانوں میں جذبہ ہے وہ شاید آنے میں اب ان عمر رسیدہ سیاست دانوں کو گھر بٹھا دیں گے کہ اب نئی قیادت ہی اس ملک کو سنبھالے گی، کیونکہ سیاست دانوں نے جھوٹ بول بول کر وعدے کرکے اپنی ساکھ کو تباہی کے کنارے لگا دیا ہے۔

اس ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے والے مولوی بھی گزشتہ 60سال سے اقتدار کے مزے لوٹ ریے ہیں اور آج بھی یہ اسلام کا نام لے کر وعدے کررہے ہیں کہ ہم اسے اسلامی ریاست بنائیں گے۔

سیاست دانوں کو تو چھوڑ دیں یہ مولوی تک سیدھے راستے پر چلنے کو تیار نہیں۔ آج تک کسی مولوی نے سود کرپشن اور عریانیت کے خلاف قومی اسمبلی کا ممبر ہونے کے باوجود آواز نہیں اٹھائی، واقعی آنے والا الیکشن اور وقت نوجوانوں کا ہوگا؟

شاید آپ یہ بھی پسند کریں