دانش ورانہ بد دیانتی میں ہمارے دائیں بازو کے لوگوں کا کوئی ثانی نہیں سہیل احمد عرف عزیزی اور جنید سلیم جیسے بہت سے میڈیا پرسنز جو کل تک طالبان اوردیگر مذہبی جنونیوں کو ناراض بچہ کہتے رہے گذشتہ چند دنوں سے انتہائی جعلی قسم کے تاثرات کے ساتھ پشاور کے شہید بچوں کے لیے دکھی شاعری پڑھ رہے ہیں۔ یہ لوگ آج بھی طالبان کے حق میں تاولیں تلاش کر رہے ہیں اور محض آگ ٹھنڈی ہونے کے انتظار میں ہیں۔ ان سب احباب سے گزارش ہے خدا کے واسطے ہمارے سامنے ایسی جعلی ایکٹنگ مت کریں کہ ہمارے زخم اور گہرے ہو جاتے ہیں۔ خیران مسخروں کی تو حیثیت ہی کیا ہے میں تو انصار عباسی، اوریا مقبول جان، شاہین صہبائی، جاوید چوہدری اور قاسمی صاحب جیسے لوگوں سے بھی ہاتھ جوڑ کر گزارش کروں گا کہ اگلے چند روز تک میڈیا پراپنی شکلیں مت دکھائیں کہ آپ کی شکلیں دیکھ کربچوں کی لاشیں آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیں۔
یہ سب وہی لوگ ہیں جو مختلف طریقوں سے طالبان کی درندگی کا دفاع اورانھیں پاکستانیوں کا ناراض بھائی ثابت کرتے رہے اوریہی لوگ طالبان کے گناہ دوسروں کے سرڈال کر انھیں بے گناہ ثابت کرنے کی بھونڈی کوششیں کرتے رہے ہیں۔
محترمہ کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت اورخاص طور پرآصف زرداری کے مخالفین جس میں اسٹیبلشمنٹ، تحریک انصاف اور نون لیگ سبھی شامل تھے کی طرف سے جو سوال تواتر کے ساتھ اُٹھایا جاتا رہا وہ یہ تھا کہ’محترمہ کے قتل کا بینیفشری کون تھا؟۔ سولہ دسمبرپشاور سانحہ کے بعد وہی لوگ اسے سقوط ڈھاکہ اور ہندوستان کے ساتھ جوڑ رہے ہیں مگر یہ کوئی پوچھنے کو تیار نہیں کہ “پشاور سانحہ کا بینیفشری کون ہے؟”۔ کسی کو یاد نہیں کہ کراچی، لاہور اور فیصل آباد کے کامیاب مظاہروں کے بعد اٹھارہ دسمبر کو عمران خان نے پاکستان بند کرنے کی کال دی تھی اورہرآنے والے دن کے ساتھ حکومت کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ صحافیوں میں سے بھی کسی کو یہ جرات نہیں کہ وہ ’’شہباز شریف کا وہ بیان دہرا سکے کہ طالبان ہم پرحملے نہ کریں وہ ہمارے بھائی ہیں‘‘۔ بلکہ بے تکے تجزیے پیش کیے جا رہے ہیں کہ اس کا سیاسی فائدہ عمران خان کو ہوگا کہ انھوں نے اس سانحہ کے بعد دھرنا ختم کرکے اتنی بڑی قربانی دی لیکن طالبان کو دفتر کھول کردینے کی بات کس نے کی تھی، کس نے کہا تھا کہ مذاکرات کے سوا کوئی حل نہیں اور کون کہتا تھا کہ قبائلیوں کو شکست نہیں دی جا سکتی؟۔
یہ فضل الرحمن، عمران خان، نواز شریف، سمیع الحق اور جماعت اسلامی کی ناقص اوربد دیانت سمجھ ہی تھی جو آخروقت تک طالبان کے خلاف کسی بھی قسم کے ایکشن کے خلاف رہی اور پھرآخرکارفوج نے ہی آپریشن کرنے کا ارادہ کرلیا۔ فوج کے اس فیصلے سے بھی پہلے آصف زرداری، اے این پی اور متحدہ ہمیشہ سے طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کے حق میں تھے مگر جنرل کیانی نے پیپلز پارٹی کی حکومت اورآصف زرداری کے مشوروں کو رد کیا۔ لوگوں کو آصف زرداری کی خامیاں نظرآتی ہیں مگرخوبیوں پروہ منافقت کی چادراوڑھ لیتے ہیں میں خود بھی زرداری صاحب کا نقاد ہوں مگراس معاملے میں اور آج کی صورتحال اور پشاور واقعہ کے بعد سارا کریڈٹ عمران خان کو نہیں آصف زرداری کو دیتا ہوں اور ان کے علاوہ کوئی شخص اگرکریڈٹ کا مستحق ہے وہ الطاف حسین اوراس کی جماعت متحدہ ہے جو پہلے دن سے طالبان کے خلاف بلاخوف وخطر کھڑی ہے۔ پرسوں جو الطاف حسین نے طالبان اور خاص طور پران کے لال مسجد والے حمایتیوں کے خلاف کھل کربات کی اس کی مثال پاکستان کی کوئی اورقیادت آج تک پیش نہیں کر سکی اوراگر میں یہاں اے این پی کے شیر جوانوں کی ہمت کی داد نہ دوں تو وہ بھی بے ایمانی ہوگی کہ ان سے بڑھ کر کس نے قربانیاں دیں اور کون قربانیاں دینے کے باوجود ڈٹا رہا؟۔
میڈیا میں بیٹھے رائٹ ونگ کے دانشور ہمیشہ سے عقل و دانش کے ساتھ بددیانتی کے مرتکب ہوتے رہے ہیں اوریہی وجہ ہے کہ وہ آج نواز حکومت کی ڈولتی اور ڈوبتی کشتی کو دیکھ کراس سوچ سے سارا کریڈٹ عمران خان کو دینا چاہ رہے ہیں کہ کہیں عوام طالبان کے حمایتیوں اور مخالفین کی بنیاد پر کسی بائیں بازو کی جماعت کی حمایت پرتیارنہ ہوجائیں لیکن کیا عوام اندھے، گونگے اوربہرے ہیں؟ کیا لوگوں کو یاد نہیں کہ کون طالبان کی حمایت کرتا رہا؟ کیا یہ اتنی پرانی تاریخ ہے کہ لوگوں کو ہماری روایتی تاریخ کی طرح دھوکہ دیا جا سکے؟ نہیں صاحب یہ سب ابھی کل کی بات ہے اورر منافقین کے سوا کوئی اسے بھلا نہیں سکتا۔
دینی اورمذہبی جماعتوں میں اگرکوئی طالبان کے خلاف کھل کربولا تو وہ ڈاکٹرطاہرالقادری، صاحب زادہ حامد رضا اور ایم ڈبلیو ایم والے ہی تھے اورجب طالبان اوردیگر دہشت گرد تنظیموں کے بڑے بڑے مخالفین کا نام لیا جائے تو کوئی سابقہ سینیٹر فیصل رضا عابدی کی جرات کو کیسے بھول سکتا ہے کہ جس نے اپنی سینیٹ کی سیٹ بھی اسی مقصد کے لیے چھوڑدی؟ آصف زرداری کے ساتھ تمام اندرونی سیاسی فیصلوں سے اختلاف کے باوجود میں کہنے پر مجبور ہوں کہ اس سنگین جرم میں وہ نواز اور عمران خان کی طرح مجرم نہیں ٹھہرے۔ کچھ لوگ جان بوجھ کر طالبان کی حمایت کا سارا بوجھ عمران خان پرڈال کر منافقت اور سچ سے ڈنڈی مارنے کے مرتکب ہو رہے ہیں جبکہ اس وقت کسی بھی قسم کی ڈنڈی یا فریب اور دھوکہ دہی برداشت نہیں کی جا سکتی۔ بلاشبہ طالبان کی حمایت کے معاملے میں رائیونڈ کے شریف عمران خان سے بھی بڑے مجرم ہیں جو ایک عرصہ تک وزیرستان آپریشن کو ٹالنے کی کوشش کرتے رہے۔ جنھوں نے ایک عرصہ تک پھانسی پر عملدرآمد محض طالبان کی محبت میں روکے رکھا۔
آج کی فضا میں اگر کسی کا اتنخاب ہونا ہے تو طالبان کی مخالفت اورحمایت کی بنیاد پرہی ہونا ہے۔ فوجی اور سرکاری افسران کی اولادوں کو بھی یہی یاد رکھنا ہوگا کہ کون طالبان کا حمایتی رہا اورکس نے سولہ دسمبر دو ہزار چودہ کو ایک سو ساٹھ سے زائد لوگ اورایک سو چالیس سے زائد آرمی پبلک سکول کے بچے مارے۔