چند روز پہلے محترم مظهر صدیقی صاحب نے مری فیس بک وال پرپوچھا تھا کہ کیا ’لاهور میں پٹرول کے بحران کی وجه سے ایمبولنس سروس بھی تو بند کر دی گئی ہوگی؟ کوئی لاہورکا دوست اس بارے ضرور بتائے‘۔
میں نے اس کے جواب میں لکھا کہ۔۔۔
مرنے اورلاشیں ڈھونے کے لیے ہرسہولت میسرہے ایمبولینس زیادہ تریہاں لاشیں ڈھونے کا کام ہی کرتی ہے باقی اگر اسپتال میں ڈاکٹرہی نہ پہنچ سکیں تو ایمبولینس سروس کس کام کی؟
اس کے نیچے میرے ایک دیرینہ دانشوراورمنجھے ہوئے چوٹی کے روشن خیال کالم نویس دوست کا یہ کمنٹ۔۔۔
’’میں ابھی ڈاکٹرزاسپتال سے آرہا ہوں جہاں ہمارے عزیز ازجان دوست ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک خوفناک حادثے کا شکار ہو کر زیر علاج ہیں میں نے کئی گھنٹے قیام کے دوران ڈاکٹروں کو پوری تن دہی سے مریضوں کی جان بچاتے دیکھا۔ پٹرول کی قلت کے باوجود ڈاکٹرنہ صرف یہ کہ تشریف لائے بلکہ کئی ڈاکٹرز کو ایندھن بچانے کے لئے چھوٹی گاڑیوں پراسپتال آتے بھی دیکھا‘‘۔
اسے کے نیچے میں نے صرف اتنا لکھا تھا کہ۔۔۔
‘‘ڈاکٹرز ہاسپٹل لاہور کا سب سے مہنگا نجی ہسپتال ہے’’
مقصد یہ سب بتانے کا صرف اتنا ہے کہ ہمارے ہاں برانڈڈ دانشور اورکالم نویس حضرات زمینی سچ اورعمومی سماجی حالات سے اس قدر دور ہو چکے ہیں کہ اب انھیں ریٹائر ہی ہو جانا چاہیے وہ ہرطرح کے جرائم سے بھرے معاشرے میں محض پاکستان کی تاریخ کا ایک انتہائی محدود مدت کا کتب خانے والا مطالعہ پیش کرکے دوہزار پندرہ کے حالات پر تجزیہ نگاری کرتے ہیں۔ کیا انھیں علم نہیں کہ مہنگے نجی ہسپتالوں کے ڈاکٹرز کا معاوضہ بھی دوسروں سے تین گنا زیادہ ہوتا ہے؟ اگرکوئی انتہائی اعلیٰ معاوضہ لینے کے بعد ایک نجی ہسپتال میں اپنی ذمہ داری اور فرائض احسن طریقے سے انجام دے رہا ہے تو اس میں بڑائی کیا ہے؟ یہ نجی اسپتال اوراعلیٰ معاوضے کی مثال عام زندگی سے کیا تعلق رکھتی ہے؟ ڈاکٹرز ہاسپٹل سے نیچے ہزاروں کے حساب سے نجی ہسپتال اوران کے بھی بعد سرکاری ہسپتالوں کی باری آتی ہے۔ بلا شبہ دہشتگردی، جہالت سے لے کر عقل و دانش تک ہم ہر سطح پربحران کا شکار ہیں۔ موصوف کی یہ مثال ایسے ہی تھی کہ جیسے کوئی کہے کہ بحریہ ٹاون میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی بجلی نہیں جاتی پاکستانی شور کیوں مچاتے ہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ آپ یہاں نوجوانوں کو روشن خیالی اورلبرل ازم پربڑے بڑے سیمینارزمیں لیکچر دیتے ہیں۔ بڑے چینلز پربیٹھ کرتجزیہ نگاری اور پاکستان میں سیکولرازم کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا متوسط اور غریب یعنی نوے فیصد طبقہ کی اکثریت حقیقت سے دور روشن خیالوں کے بیانیے سے کبھی متفق و متاثرنہیں ہوتی اوراس کم علمی، کمزوربصیرت ومشاہدے کی وجہ سے دائیں بازو کی سیاسی اورمذہبی جماعتوں کی طرف چلی جاتی ہے۔
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ پاکستان کے ان برائے نام روشن خیالوں میں میرا دوست اکیلا نہیں ہے۔ عاصمہ جہانگیر اورماروی سرمد جیسے اوربھی بہت سے لوگ ہیں جو حقیقی سماجی مسائل و حقائق سے ناواقف بے پرکی دانش بھگارتے رہتے ہیں۔ خدا خدا کرکے فوجی عدالتوں کی صورت دہشت گردوں کو سزا دینے کے عمل کی ابتدا ہونے جارہی ہے اور یہ صاحبان جو ہمیشہ سے مذہب، مذہبی انتہا پسندی اوردہشت گردی کے خلاف لیکچرزجھاڑتے رہے ہیں اب یہ اس سارے عمل کو متنازعہ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ کسی کو لگتا ہے کہ سزا دینے سے دہشت گردی ختم نہ ہوگی، کوئی کہتا ہے کہ کسی ایک فکر کے لوگوں کو نشانہ نہ بنایا جائے۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ کسی ایک فکر کے لوگوں کو نشانہ نہیں بننا چاہیے۔ یہ ملک سب کا ہے۔ لیکن اگر پچانوے فیصد دہشت گردوں کا تعلق ہی کسی ایک فکر سے ہو تو کیا کیجیے گا؟ تو کیا قاتلوں کو محض اس بنیاد پر چھوڑ دیجیے گا کہ ان کا تعلق ایک ہی فکر سے لہذا اگر انھیں سزا دی گئی تو ملک میں تقسیم بڑھے گی، فرقہ واریت پھیلے گی؟ یہ کیا دلیل ہے؟ فرقہ واریت پہلے کون سی کم ہے؟ بات تو قاتل اوردہشت گردی کی ہے۔ جو بھی معصوم انسانوں کا قاتل ہے اس کو سزا دو چاہے وہ کسی بھی مسلک، فکریا نظریے کا حصہ ہو۔
ایک اور اہم بات جس کو یہ لوگ آپس میں خلط ملط کررہے وہ دہشت گردی اورانتہا پسندی ہے۔ ان کے مطابق ہرانتہا پسند دہشت گرد ہے جبکہ انتہا پسندی ہرمذہب، فکر، نظریہ اور رنگ نسل میں موجود ہے۔ ہندوستان میں شیو سینا انتہا پسند تنظیم ہے لیکن کیا شیو سینا کے لوگ اسی طرح اپنے ہم مذہب لوگوں کے سرکاٹ کرفٹبال کھیلتے ہیں کہ جیسے طالبان؟ کیا دنیا کے دیگر حصوں میں انتہا پسند تنظیمیں اسی قدر منظم طریقے سے اپنی فوج اورشہریوں پرخود کُش حملے کرتی ہیں اور گلے کاٹتی ہیں؟ بلاشبہ انتہا پسندی ایک لعنت اوردہشت گردی کا بنیادی عنصر ہے مگردہشت گردی اورانتہا پسندی قطعی طور پرایک برابرنہیں ہیں۔ میری نظر میں تو ٹیری جونزاوروہ فرانسیسی جریدے کے بانجھ تخلیق کارجو محض کارٹون بنانے کو انسانیت کی خدمت جانتے ہیں وہ بھی انتہا پسند ہیں لیکن کیا وہ انسانوں ذبح کرتے ہیں، ان کے سروں سے فٹبال کھیلتے ہیں، کیا وہ بچوں اوربچیوں کو حصول تعلیم سے روکنے کے لیے انھیں قتل کرتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ لہذا آج کے حالات میں دہشت گردی اورانتہا پسندی کی مختلف شکلوں کو ایک جیسا سنگین جرم قراردینا شاید دہشت گردی کی وکالت کے مترادف سمجھا جائے گا۔