The news is by your side.

یاسر رضوی : تعلیم و تربیت کا ایک اور باب اختتام پزیر

افسوس کہ کراچی میں آج ایک اور صاحب علم کو گولی مار دی گئی، کہا جاتاہے کہ عالِم کی موت عالَم موت ہوتی ہے، تو ایسا استاد جو روزانہ طلبا کے ساتھ گھنٹوں نشست کیا کرتا تھا ، اپنا حاصل کردہ سارا علم قوم کے نوجوانوں میں منتقل کرنے کے منصب پر فائز تھا، وہ بھی دہشت گردوں کے لیے قابل برداشت نہ رہا، دہشت گردوں نے ایک استاد کو قتل کرکے قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔

ذہنی اور فکری پسماندگی کے شکار یہ حیوان نما انسان کیوں بھول جاتے ہیں کہ گلشن سے اکھاڑے گئے مہکتے پودے اپنی جڑیں زمین میں چھوڑ جاتے ہیں،وقت کے ساتھ یہ جڑیں پھر کسی خوشنما مہکتے ہوئے پودے کی شکل میں پھوٹ پڑتی ہیں۔

گلستانِ صحافت کے گلِ سرسبز،لبوں پر مسکراہٹ سجائے دھیمے اور تیکھے لہجے کے حامل، خوددار پروفیسر وحید الرحمان المعروف یاسر رضوی ہمارے دلوں میں بستے تھے اورہمیشہ ہمارے قلب و ذہن میں زندہ رہیں گے۔

علم وقلم کا یہ سپاہی اس عالمِ آب وخاک سے جدا ہوکر بھی ہم سے جدا نہ ہوا،وہ ہم میں سے تھا اور شہادت کا بلند رتبہ پا کر ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔

11188284_812976812117273_7565576587894639825_n

دھیمے لہجے کے مالک پروفیسر وحید الرحمان المعروف یاسر رضوی استاد ہی نہیں بلکہ ان چند استادوں میں سے ایک تھے جو اپنے شاگردوں کو شاگرد نہیں بلکہ دوست رکھتےتھے، اس علم دوست انسان کے دنیائے فانی سے کوچ کرنے کی خبر کسی بڑے صدمے سے کم نہیں ۔

فیڈرل بی ایریا بلاک 16 میں کار پر فائرنگ سے زخمی شخص دم توڑ گیا، یہ وہ خبر تھی جس کے بعد تمام نیوز چینل اس جاں بحق شخص کی شناخت سے متعلق معلومات حاصل کرنے میں مصروف ہوگئے، وہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ وہ تھا جس نے مجھے خبر لکھنا سیکھائی تھی آج مجھے اس ہی شخص کے قتل کی خبر لکھنا پڑئی ، استاد کو تین موٹر سائیکلوں پر سوار چھ درندہ سفت ملزمان نے پہلے کار پر سامنے سے فائرنگ کی گئی بعد ازاں دروازے کی جانب سے بھی ان پر فائرنگ کی گئی۔

fir

پہلے تو یقین نہیں آیا لیکن جب چہرہ پُرسکون نظر کے سامنے آیا تو ایک لمحے کو دل اور دماغ پر سکتہ طاری ہوگیا،اور بس علم دوست انسان کی باتیں یاد آنے لگیں۔ صحافتی کیرئیر کے حوالے سے ان کے الفاظ’کب تک ایک چینل کے ساتھ منسلک رہو گے اب طلاق دو اسے‘گونج رہے ہیں۔تنقید و نصحیت اتنے پیار سے کیا کرتے تھے کہ  سننے والا مسکراتے ہوئے اسی وقت سے اس پر عمل کرنا شروع کردے۔

چند روز قبل جامعہ کراچی میں ایم فل کے داخلہ کے حوالے سے ملاقات ہوئی تو مشورہ تو دیا ساتھ ہی اپنے ہاتھوں سے لکھ کے ایک نوٹ بھی تھما دیا اور کہا یہ چند اہم موضوع ہیں ان کی تیاری آج سے ہی شروع کردو ساتھ ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ ’حالات عجیب ہیں خیال رکھا کرو‘۔

 استاد چلا گیا لیکن اس کے الفاظ اس کی باتیں اس کے مشورے ہمشہ ذہنوں میں گردش کرتے رہیں گے، استاد سے آخری ملاقات کے مناظر بھی بھلائے نہیں بھلا پاوں گا، آخری ملاقات میں بھی مستقبل کی بہتری کا مشورہ دیا اور جاتے جاتے بھی کہہ گئے کہ ’چائے اُدھار رہ گئی‘۔

سر یاسر کے طالب اور میرے دوست فرحان میر سے آج استاد کی نماز جنازہ پر ملاقات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کبھی سوچا نہ تھا استاد کے ساتھ لی گئی تصویر استاد کی شہادت پر ٹی وی چینلز پر چلتی نظر آئے گی۔

10406854_638713162930280_6003721572236423482_n

یہ کوئی نیا یا انوکھا واقع نہیں بلکہ گذشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان بھر میں اساتذہ کے سرعام قتل سے دل خون کے آنسو  روتا آرہا ہے، قابل غور بات یہ ہے دہشت گردوں نے تعلیم دینے والے طبقے کو نشانہ بنایا اور بنا رہے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ قوم کو ترقی کی طرف لے جانے والے معمار بھی اب کسی کو قبول نہیں، یہ نہ صرف قوم بلکہ فکر اور شعور کا قتل ہے کیوںکہ  ہر ناحق اٹھنے والی آواز کا راستہ استاد روکتا ہے یا روکنے کی کوشش کرتا ہے یا روکنے کا شعور دیتا ہے۔

شب کے سفاک خداوں کو خبر ہو کہ نہ ہو
جو کرن قتل ہوئی شُعلہ خورشید بنی

کراچی میں دہشتگردی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جس میں شدت پسند تنظیموں کی دہشتگردی، جرائم پیشہ گینگز کی لڑائیاں اورسیاسی جماعتوں میں شامل عسکری ونگز کی کاروائیاں شامل ہیں۔ جرائم کی بیخ کنی کیلئے دسمبر 2013سے جاری آپریشن میں پولیس اوررینجرزکی کاروائیوں کا اگرجائزہ لیا جائے تو پولیس نے روٹین پولیسنگ سے زیادہ بڑھ کر کچھ نہیں کیا کراچی کو درپیش مسائل دہشتگردی،اغواء برائے تاوان اوربھتہ خوری کے خاتمے کے حوالے سے پولیس کے دعووں کی اگرگہرائی میں جائیں تو یہ بات معلوم ہوتی ہے رینجرزاوردیگر حساس اداروں کی کاروائیوں میں گرفتاراہم ملزمان کی میڈیا میں گرفتاری ظاہرکرنے سے زیادہ پولیس کچھ نہیں کررہی۔

پولیس کا کام عوام کی جان و مال کا تحفظ اورامن کے قیام کے علاوہ واقعات کی تفتیش ہونا چاہئے تھا لیکن کراچی میں اسٹریٹ کرائمز اورڈکیتیوں کی روک تھام میں پولیس ناکام رہی ہے، اغواء برائے تاوان اور زمینوں پر قبضے روکنا توکجا پولیس خود ایسے جرائم میں ملوث پائی گئی (رینجرز نے ڈسٹرکٹ ایسٹ کے علاقے شارع فیصل سے اغواء برائے تاوان میں ملوث پولیس اہلکاروں کا گینگ بھی پکڑا) تفتیش کے شعبے میں بھی پولیس کا معاملہ صفر ہے اہم کیسزمیں مقدمہ درج کرنے اورشواہد اکھٹے کرنے سے زیادہ پولیس کوئی پیشرفت نہیں کرپاتی مثلاحالیہ ہائی پروفائل کیسز کی بات کی جائے تو ایس ایچ او اعجازخواجہ، سماجی کارکن سبین محمود کے قتل اورامریکی ڈاکٹرڈیبرالوبو پرحملے کی تحقیقات میں پولیس کوئی پیشرفت نہیں کرسکی۔

پولیس ہیڈ آفس کی ایک تقریب میں ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام قادرتھیبو نے میڈیا کے نمائندوں سے غیررسمی گفتگو کے دوران شکوہ کیا کہ میڈیا میں ہونے والی غیرمحتاط رپورٹنگ سے عالمی سطح پر کراچی کا نام بدنام ہورہا ہے مگراس معاملہ پربحیثیت صحافی میری رائے یہ ہے کہ پولیس کا جرائم میں ملوث ہونے یا جرائم کی سرپرستی کی وجہ سے کراچی عالمی سطح پر زیادہ بدنام ہورہا ہے میڈیا سے زیادہ پولیس کو اصلاح کی ضرورت ہے۔

اسی تقریب میں جب آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی نے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اوردیگرجرائم کو ختم کرنے کا دعویٰ کیا جس پرایک صحافی نے سوال کیا کہ اگرشہر میں امن قائم ہوگیا ہے تو کیا رینجرزکو کراچی سے واپس بھیج دیا جائے؟ اس سوال کا جواب آئی جی صاحب گول کرگئے۔

کراچی میں جاری آپریشن کی بعض پہلوں پربحث بھی ہوسکتی ہے لیکن اب تک جاری رہنے والے آپریشن میں سے اگر رینجرزکی کاروائیوں کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو پولیس کے کھاتے میں کچھ بھی نہیں ہے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں