استاد صحافی پروفیسر وحید الرحمان کو اس شہر بے اماں میں بے دردی سے قتل کردیا گیا پروفیسر وحید الرحمان المعروف یاسر رضوی کون تھے اور کیا تھے اس پر ان سے عقیدت رکھنے والے طالب علم بھی لکھ چکے اور ان سے محبت رکھنے والے صحافی بھی۔ مجھے تو اس خوف کی لکیروں پر کچھ تحریر کرنا ہے جو پروفیسر وحید کے بہیمانہ قتل کے بعد ان کے ساتھی اساتذہ کے چہروں پر نقش ہوئی ہیں۔
اب تک یہاں ہرچیزخطرے میں تھی مگرعلم سلامت تھا اس شہرمیں ملک کے سب سے زیادہ تعلم یافتہ لوگ بستے تھے اور کسی نہ کسی طریقے سے اس علم کو پھیلا رہے تھے مگر اب تو لگتا ہے سفاک قاتلوں نے اس شہر سے اس کی شناخت بھی چھیننا شروع کردی ہے پچھلے کچھ عرصے میں جتنے زیادہ علماء اور اساتذہ کو قتل کیا گیا اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔
مارنے والوں نے ایک پروفیسر وحید کو نہیں مارا بلکہ علم کا ایسا دریا سکھا دیا جس سے آئندہ کی نسلوں کو سیراب ہونا چاہئے تھا۔ عباسی اسپتال میں پروفیسر وحید کا پوسٹ مارٹم جاری تھا اورڈاکٹرز بتارہے تھے کے مقتول کو 5 گولیاں سر ،گردن،سینے اور کاندھے میں لگیں میں سوچنے لگا کہ اپنے طالب علموں سے ہمیشہ شفقت اور محبت سے پیش آنے والے شخص نے تاریک ذہنوں کو روشنی دینے کے سوا ایسا کونسا جرم کیا ہوگاجس کی اسے درندہ صفتوں نے اتنی بھیانک سزا دی۔ مردہ خانے کے باہر سر جھکائے افسردہ کھڑے اساتذہ اور طالب علم ایک دوسرے کی آنکھوں سے جھانکتے سوال پڑھ رہے تھے۔
عدم تحفظ کے شکارہراستاد کی آنکھوں میں سوال تھا کہ کہیں اب اس کی باری تو نہیں؟ کیونکہ خدمت جرم بن گئی ہے اور بے ضرر لوگوں کا مارا جانا معمول بنتا جارہا ہے۔
طالب علموں کی آنکھوں سے جھانکتے سوالوں میں حال کی بے بسی اور مستقبل سے مایوسی واضح تھی۔
پروفیسر وحید الرحمان کے قتل نے صرف ایک گھر کو نہیں بلکہ اس ملک کے امن پسند اور علم دوست طبقے کو مایوسیوں کی اتھاہ گہرایوں میں دھکیل دیا ہے۔
کراچی میں دہشتگردی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جس میں شدت پسند تنظیموں کی دہشتگردی، جرائم پیشہ گینگز کی لڑائیاں اورسیاسی جماعتوں میں شامل عسکری ونگز کی کاروائیاں شامل ہیں۔ جرائم کی بیخ کنی کیلئے دسمبر 2013سے جاری آپریشن میں پولیس اوررینجرزکی کاروائیوں کا اگرجائزہ لیا جائے تو پولیس نے روٹین پولیسنگ سے زیادہ بڑھ کر کچھ نہیں کیا کراچی کو درپیش مسائل دہشتگردی،اغواء برائے تاوان اوربھتہ خوری کے خاتمے کے حوالے سے پولیس کے دعووں کی اگرگہرائی میں جائیں تو یہ بات معلوم ہوتی ہے رینجرزاوردیگر حساس اداروں کی کاروائیوں میں گرفتاراہم ملزمان کی میڈیا میں گرفتاری ظاہرکرنے سے زیادہ پولیس کچھ نہیں کررہی۔
پولیس کا کام عوام کی جان و مال کا تحفظ اورامن کے قیام کے علاوہ واقعات کی تفتیش ہونا چاہئے تھا لیکن کراچی میں اسٹریٹ کرائمز اورڈکیتیوں کی روک تھام میں پولیس ناکام رہی ہے، اغواء برائے تاوان اور زمینوں پر قبضے روکنا توکجا پولیس خود ایسے جرائم میں ملوث پائی گئی (رینجرز نے ڈسٹرکٹ ایسٹ کے علاقے شارع فیصل سے اغواء برائے تاوان میں ملوث پولیس اہلکاروں کا گینگ بھی پکڑا) تفتیش کے شعبے میں بھی پولیس کا معاملہ صفر ہے اہم کیسزمیں مقدمہ درج کرنے اورشواہد اکھٹے کرنے سے زیادہ پولیس کوئی پیشرفت نہیں کرپاتی مثلاحالیہ ہائی پروفائل کیسز کی بات کی جائے تو ایس ایچ او اعجازخواجہ، سماجی کارکن سبین محمود کے قتل اورامریکی ڈاکٹرڈیبرالوبو پرحملے کی تحقیقات میں پولیس کوئی پیشرفت نہیں کرسکی۔
پولیس ہیڈ آفس کی ایک تقریب میں ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام قادرتھیبو نے میڈیا کے نمائندوں سے غیررسمی گفتگو کے دوران شکوہ کیا کہ میڈیا میں ہونے والی غیرمحتاط رپورٹنگ سے عالمی سطح پر کراچی کا نام بدنام ہورہا ہے مگراس معاملہ پربحیثیت صحافی میری رائے یہ ہے کہ پولیس کا جرائم میں ملوث ہونے یا جرائم کی سرپرستی کی وجہ سے کراچی عالمی سطح پر زیادہ بدنام ہورہا ہے میڈیا سے زیادہ پولیس کو اصلاح کی ضرورت ہے۔
اسی تقریب میں جب آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی نے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اوردیگرجرائم کو ختم کرنے کا دعویٰ کیا جس پرایک صحافی نے سوال کیا کہ اگرشہر میں امن قائم ہوگیا ہے تو کیا رینجرزکو کراچی سے واپس بھیج دیا جائے؟ اس سوال کا جواب آئی جی صاحب گول کرگئے۔
کراچی میں جاری آپریشن کی بعض پہلوں پربحث بھی ہوسکتی ہے لیکن اب تک جاری رہنے والے آپریشن میں سے اگر رینجرزکی کاروائیوں کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو پولیس کے کھاتے میں کچھ بھی نہیں ہے۔