The news is by your side.

پولیس میں رشوت ستانی کی پہلی اینٹ

پہلے مجھے خوشگوارحیرت ہوتی تھی جب لوگ میڈیا سے بہت زیادہ امید رکھتے تھے اور اس خوش فہمی میں اتنا آگے نکل جاتے تھے کہ اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل کے حل کیلئے میڈیا ہاوسز کے چکر لگاتے اور بعض معاملات میں انہیں ہم صحافیوں کی بدولت انصاف مل جاتا یا ان کی آواز ہم متعلقہ اداروں یا افراد تک پہنچا پاتے تھے شاید یہی وجہ ہے کہ اب لوگ میڈیا سے بہت زیادہ امید یں لگا بیٹھے ہیں لیکن بے بسی کے ساتھ اس بات کا اعتراف ضروری ہے کہ آج میڈیا کی ترجیحات میں بڑے ملکی اوربین الاقوامی مسائل اوران سے متعلق خبریں ہیں۔ عام آدمی کے مسائل اوراس سے منسلک خبروں کو وقت اورجگہ ہی نہیں مل پاتی لیکن پھربھی لوگ میڈیا کوامید بھری نظروں سے دیکھتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ وہ پانچوں بھی اپنا سب سے بڑا مسئلہ لے کرمیرے دفترپہنچے۔

پانچوں نوجوانوں میں ہرایک اپنے اپنے ضبط کے مطابق چہرے پر تاثرات لئے ہوئے تھا پولیس کی سخت ٹریننگ،مستقبل کے حوالے سے بے یقینی اور بے پناہ معاشی مسائل کے باعث ان نوجوانوں کے چہرے کی رونق اورآنکھوں کی چمک ماند پڑچکی تھی نم آنکھوں کے ساتھ ان میں سے ایک نے بتایا کہ سال 2014 کے اوائل میں پولیس میں بھرتی ہونے والے 2200 سے زائد نئے ہلکاروں کو 10ماہ ہوگئے ہیں لیکن انہیں آج تک تنخواہ نہیں مل سکی، سعید آباد ٹریننگ سینٹرمیں اپنی ابتدائی تربیت کا عرصہ مکمل کرچکے ہیں اوراس وقت رزاق آباد ٹریننگ سینٹر میں کمانڈو کورس کررہے ہیں جبکہ اس دوران ٹریننگ سینٹراورگھریلو اخراجات جس طرح انہوں نے پورے کئے وہی جانتے ہیں۔ دوست احباب اور رشتے داروں سے قرض لینا پڑگیا اوراب تو حالت یہ ہوگئی ہے کہ رشتے داروں نے قرض دینے سے بھی انکارکردیا ہے۔

ایک شادی شدہ اہلکار جس کے تین بچے ہیں نے بتایا کہ گھرمیں نوبت فاقوں تک پہنچ گئی ہے اسکولوں میں زیر تعلیم اس کے بچوں کے نام اسکول سے خاج کرنے کے نوٹس مل رہے ہیں بچوں کو ٹیوشن بھیجنا بند کردیا ہے اہلکاروں نے بتایا کہ تنخواہ کے حوالے سے انہوں نے متعلقہ زون، متعلقہ ڈی آئی جیز سمیت آئی جی سندھ سے بھی رابطہ کیا لیکن تمام ترکوششیں بے سود ثابت ہوئیں اس ضمن میں آئی آئی چند ریگرروڈ پر واقع سینٹرل پولیس آفس کے سامنے مظاہرہ بھی کیا لیکن وہ بھی رائیگاں گیا۔ کئی مرتبہ اعلیٰ حکام نے انہیں تنخواہ کی ادائیگی کا یقین دلایا لیکن عملی طور پر کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے جس سے وہ اذیت میں مبتلا ہیں۔

مجھے اپنی کہانی سناتے ان اہلکاروں میں ایک سخت جسامت والے نوجوان نے جذباتی انداز میں کہا کہ سرمجھے تو کوئی قرض نہیں دے رہا میں پولیس چھوڑدوں گا، میں نے سوال کیا کہ تم ایک ٹرینڈ پولیس اہلکارہو پولیس چھوڑ کر کیا کرو گے؟ کہنے لگا کچھ بھی کرلوں گا کچھ بھی جائزنہیں تو ناجائز ہمارے ساتھ بھی تو ہمارا محکمہ اتنے عرصے سے انصاف نہیں کررہا جب ہم ٹریننگ پرتھے تو آوٹ ڈیوٹی لگاتے، حساس علاقوں میں پولیو مہم کے دوران ڈیوٹیاں کراتے، جلسے جلوسوں کی سیکورٹی میں بھی ہم کھڑے ہوتے لیکن تنخواہ کا ٹائم آیا ہے تو کوئی بھی پوچھنے والا نہیں۔ جذباتی انداز میں ہرحد پارکردینے کے اندازمیں نوجوان اہلکارگویا ہوا ہماری جیب خالی ہے ہم اپنے بوڑھے اور بیمار ماں باپ کے علاج اور دیگر اخراجات پورے نہیں کرسکتے مگر ٹریننگ سینٹر میں ہم سے ہر ماہ 4 سے 5 ہزار روپے میس کٹنگ کے نام پرمانگے جارہے ہیں نوجوان نے فیصلہ کن انداز میں کہا کہ چھوڑ دوں گا پولیس اب اگرتنخواہ نہیں ملی۔

اپنا مسئلہ بتا کراہلکارتو چلے گئے مگرمیں سکتے میں ہوں اگراس جذباتی نوجوان اوراس کے دیگر ساتھیوں نے محکمہ پولیس چھوڑ دیا اورکچھ بھی جائزیاناجائزکرنے کی ٹھان لی تو؟؟؟ اوراگر ان حالات سے گذر کر یہ پولیس اہلکارعملی میدان میں آ بھی گئے تو کیا رشوت نہیں لیں گے؟ کیا عوام کی خدمت اور انصاف کا علم بلند رکھیں گے؟؟۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس میں نئے بھرتی ہونے والے اہلکاروں کو جسمانی تربیت کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی تربیت بھی کی جائے اور اس لئے بھی حکومت اور محکمہ پولیس کو اپنے اہلکاروں کی معاشی مسائل ترجیحی بنیادوں پرحل کرنے چاہئیے کہ وہ بے راہ روی کا شکارنہ ہوں اور مستقبل میں ایسے فرض شناس پولیس اہلکاربن سکیں جنہیں دیکھ کر شہریوں کو تحفظ کا احساس ہو۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں