The news is by your side.

بچوں پرتشدد ایک معاشرتی المیہ ہے

شاید ہی ایسا کوئی دن گزرا ہو جب 6 سالہ شامی اور اسکی 4 سالہ بہن دعا اپنے والدین سے مار نہ کھائی ہو یہ میرے پڑوس میں رہنے والے انتہائی شریر بچے ہیں جن کا والد الیکٹریشن ہے جو منہ اندھیرے کام پرنکل جاتا ہے اور رات گئے گھر لوٹتا ہے۔ مجھے اپنے گھر کے دیگر لوگوں سے معلوم ہوتا رہتا ہے کہ شامی اور دعا دن میں کئی دفعہ اپنی والدہ سے پٹتے ہیں اورایسا اکثراسکول نہ جانے کی وجہ سے ہوتا ہے یہ بچے اسکول نہ جانے کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ گذشتہ روز کی غیر حاضری یا ہوم ورک مکمل نہ کرنے پرٹیچر مارتی ہے، رات گئے میں اکثر ان بچوں کو اپنے والد سے ملنے والی اس سزا پرروتے چیختے سنتا ہوں جو ان کی والدہ کی شکایتوں اور اسکول سے غیر حاضری پر ان کے والد ان کو دیتے ہیں کئی دفعہ میں نے مداخلت کی ان بچوں کے والد کو سمجھایا لیکن کوئی فائدہ نہیں پھران کا ذاتی معاملہ سمجھ کرمیں بھی زیادہ زور نہیں دیتا۔

پاکستان کی 40 فیصد سے زیادہ آبادی بچوں پرمشتمل ہے۔ پاکستان کے یہی بچے جنہوں نے آگے چل کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے، اس وقت بہت سارے مسائل سے نبردآزما ہیں، مگران سارے مسائل میں پاکستان میں بچوں پر بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات سب سے زیادہ باعث تشویش ہیں یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ پاکستانی معاشرے میں بچوں کو ان کی ضد اور بعض اوقات اپنی ضد کیلئے تشدد کا نشانہ بنانے والے والدین اپنے اس فعل کو زیادہ غلط نہیں سمجھتے اور ٹھیک اسی طرح اساتذہ کے ہاتھوں بچے کو ملنے والی جسمانی سزاوں کو بھی خاطر میں نہیں لایا جاتا بلکہ کہا جاتے ہے کہ زندگی کے کئ شعبوں میں آج کامیاب افراد بھی تو کم عمری میں والدین اور اساتذہ سے مار کھاتے رہے ہیں حالانکہ دور حاضر میں اس معاملے کے سماجی پہلو پرغور کرنا چاہئے تھا کیونکہ دو دہائی قبل کے پاکستانی معاشرے اورآج کے پاکستانی معاشرے میں بہت فرق ہے آج کے بچے نے ٹی وی اور انٹرنیٹ کے دور میں آنکھ کھولی ہے جسے صرف مارکر یا ڈرا کر سدھارا نہیں جاسکتا۔

ابھی چند روز قبل کراچی کے علاقے کورنگی میں سوتیلے باپ نے تشدد کرکے 5بچوں کو شدید زخمی کردیا جن میں سے ایک 4 سالہ بچے کامران نے بعد میں زخموں کی تاب نہ لا کردم توڑ دیا ہے جبکہ اس کا بھائی عدنان تشویشناک حالت میں ہے پولیس نے بچوں کی حقیقی ماں افشین کو گرفتار کرلیا ہے ملزم عامرتاحال مفرور ہے افشین نے پولیس کو بتایا ہے کہ 5 ماہ قبل اس نے رنگساز عامر سے دوسری شادی کی ہے لیکن شادی کے بعد معلوم ہوا کہ عامرنشے کا عادی ہے جس کی وجہ سے گھرمیں جھگڑے معمول بن گئے تھے ان حالات میں اکثرافشین کے پانچوں سہمے ہوئے بچے اپنے سوتیلے نشئی باپ کے عتاب کا نشانہ بنتے اور پھرنوبت یہاں تک پہنچی کہ 4 سالہ کامران چل بسا۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ اب تک ہمارے یہاں اس حوالے سے نہ کوئی واضح پالیسیاں ہیں، اورنہ ہی پہلے سے موجود قوانین پران کی اصل روح کے مطابق عمل ہورہا ہےمشاہدہ کیا گیا ہے کہ جہاں ظالمانہ سزاؤں کی روک تھام کے لیے معاشرے کے رویوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے، وہیں قوانین کا عدم نفاذ اور ایسے گھناؤنے واقعات میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا نہ ملنا بھی ان واقعات میں اضافے کی ایک وجہ ہے۔ بچوں کا تحفظ اور ان کو بہتر مستقبل کی فراہمی میں والدین، خاندان، اساتذہ، اہل علاقہ، حکومت اور ان سے منسلک تمام افراد اوراداروں کا کردار انتہائی اہم ہے۔ مگر ان کے ساتھ ساتھ بچوں کے تحفظ کے حوالے سے حکومتی پالیسیاں اوران پرعملدرآمد زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

پہلے قدم کے طورپروالدین اوراساتذہ کو تربیت دینے کے ساتھ ساتھ ان میں یہ حساسیت بیدارکرنے کی ضرورت ہے کہ غلطیوں پربچوں کو روایتی طریقوں سے دی گئی ظالمانہ سزاؤں کے علاوہ بھی ایسے انسانی طریقے ہیں کہ جن سے ان میں نظم و ضبط پیدا کیا جاسکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ کم عم بچوں پرتششد کا یہ سلسلہ مکمل طورپرختم ہوناچاہئے کیونکہ جو بچے گھروں اور اسکولوں میں جسمانی سزاؤں سے متعارف ہورہے ہیں، انہیں بالغ ہونے پرتشدد اوراستحصال کے اس سلسلے کا حصہ بنانے سے بچانا بے حد ضروری ہے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں