The news is by your side.

بڑی رنگین و دلچسپ ہے داستان خواجگان

“ایک ایک آدمی نے چھ چھ وٹوں پر انگوٹھے لگائے۔ فارم چودہ پر جعلی دستخط تھے۔ تاہم سعد رفیق یا الیکشن عملہ کے دھاندلی میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا” حلقہ ایک سو پچیس کی دھاندلی کا تفصیلی فیصلہ۔ یعنی سعد رفیق نے کسی کو کہا بھی نہیں مگر عوام اور عملہ ان کے لیے جعل سازی کرتا رہا۔ بڑی بے لوث دھاندلی تھی۔ اور بڑی رنگین و دلچسپ ہے داستان خواجگان۔ سعد رفیق کے فیصلے پر سمجھ نہیں آتی خوشی منائی جائے یا اظہار افسوس کیا جائے۔

ایک عرصہ سے مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو یہ گلہ تھا کہ ’’جیسے سندھ میں الیکشن ٹربیونل نے دھاندلی کے خلاف فیصلے دیے ویسے فیصلے پنجاب میں کیوں نہیں دیے جاتے؟‘‘ہمیں اُمید تھی کہ جس دن انصاف کا معیاربرابر ہوگا اس دن ہم بہتری کی طرف بڑھ جائیں گے۔ ہمیں یہ شکوہ بھی تھا کہ باقی سیاسی جماعتوں کے خلاف فیصلے آتے ہیں مگر نواز لیگ کے خلاف فیصلے نہیں آتے؟ تو سعد رفیق کے فیصلے کے بعد یہ اعتراض کسی حد تک کم ہوگیا۔ لیکن اندیشے ابھی تک برقرار ہیں۔ سعد رفیق کا فیصلہ ایک کیلکولیٹو موو یعنی سوچی سمجھی منصوبہ بندی بھی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ سعد رفیق ہی نون لیگ میں وہ مستند اُمیدوار ہیں جو دوبارہ الیکشن جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ خیر اب جبکہ یہ فیصلہ سامنے آ چکا ہے تو کچھ اطمینان تو ہے مگر کچھ خاص خوشی بھی نہیں۔ ایک طرف حامد خان کی تصویر نظر آتی ہے اور دوسری طرف خواجہ سعد رفیق کی۔ ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہمت سے بولنے والا نظر آتا ہے اور دوسری طرف افتخار چوہدری کی دو نمبر مہم کا سرکردہ کردار جو انتہا پسندوں کی طرح اکیسویں ترمیم کی مخالفت کرتا ہے۔ حسن اتفاق دیکھیے کہ سعد رفیق ہی مسلم لیگ نواز میں وہ شخص ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھل کر بولا۔ جب یوسف رضاگیلانی کے پیچھے سپریم کورٹ ہاتھ دھو کر پڑی تھی تو اس وقت نواز لیگ میں صرف سعد رفیق نے ہی یہ بات بھی کہی تھی کہ ججوں کا حدود سے تجاوز مستقبل میں سب کو مہنگا پڑ سکتا ہے۔ یعنی ان کا جانا بھی شاید گیلانی صاحب کے جانے جیسا ہی رہا۔

بہرحال یہی فیصلہ اگر دھرنوں کے دوران آتا تو شاید ہم کسی مختلف نتیجے کی اُمید کرسکتے تھے۔ لاہور میں اگر تحریک انصاف کی آج کے دن تک کی پوزیشن کی بات کی جائے تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ عمران خان کے روز روز بدلتے فیصلوں سے ان کی سیاست بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ اسے آپ عمران خان کا میڈیا ٹرائل کہیں یا حقیقت مگر سچ تو یہ ہے کہ آجکل جہاں بھی “یو ٹرن” کا سائن دیکھتا ہوں تو آنکھوں میں عمران خان کی تصویر آ جاتی ہے۔ شاید ایسی ہی کچھ وجوہات ہیں کہ یہاں لوگ یہ اُمید بھی کر رہے ہیں کہ سعد رفیق دوبارہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہو جائیں گے۔

عمران خان کے بھرپور اور جارحانہ احتجاج اور مظاہروں کے بعد ان کا اسمبلیوں میں جانا کچھ زیادہ پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔ اس کے جواب میں عمران خان کی یہ دلیل درست ہے کہ ان کا مطالبہ چونکہ دھاندلی کے لیے غیر جانبدار تحقیقاتی کمیشن کی حد تک تھا لہذا جب وہ پورا ہو گیا تو قومی اسمبلی میں واپس آنے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ تاہم وہ جو سٹیج پر کھڑے ہو کر ایمپائرز کی انگلیاں کھڑی کرواتے رہے، دھاندلی کی تحقیقات سے پہلے نواز کے استعفی کی باتیں اور وہ بے شمار دعوے جو انھوں نے عام آدمی کے سامنے کیے اور پھر ایک ایک کرکے ان سے پیچھے ہٹے تو ان کا جواب کون دے گا؟ بڑی قیادت وہ نہیں ہوتی جو ہوا کے دوش پر ہر مقبول نعرے کا پیچھا کرتے پتھر چاٹ کر واپس لوٹتی رہے۔ بڑی قیادت وہ ہوتی ہے جو دیوار کے دوسری طرف دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ جو عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنے کے ساتھ دور اندیش بھی ہو۔ عمران خان پاکستانی عوام کے فطری، نفسیاتی اور جذباتی پہلو پرغورکرنے سے قاصررہے کہ لوگوں کے جذبات سانحہ اے پی ایس کے بعد کیا تھے۔ اُنھوں نے شہداء کے چالیسویں سے پہلے شادی رچالی اور حامد خان نے انفرادی طورپراکیسویں ترمیم کی مخالفت کردی۔ شاید کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں ان کی ہار میں یہ بھی ایک بنیادی وجہ رہی۔ ورنہ کیا حاضر سروس اور کیا ریٹائرڈ فوجی اور ان کی فیملیاں سب ہی دھرنوں میں شامل رہے۔ سانحہ اے اپی ایس میں پاک فوج کے بچوں کی شہادت کے بعد بہت سے لوگوں کا ذہن اور سوچ بدلی ہے۔ اور یقینا حامد خان کا اکیسویں ترمیم کے خلاف جانا ان کی سیاسی پوزیشن اور آنے والے انتخابی معرکے پراثرانداز ہوگا۔ گزشتہ انتخابات میں شکست کے بعد تحریک انصاف کا حلقہ ایک سو پچیس میں کوئی ہوم ورک نہیں۔ اگر فوری طور پر ضمنی انتخابات ہوتے ہیں تو حامد خان کی جیت کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔ عمران خان گئے وقت کو لوٹا تو نہیں سکتے تاہم اپنی غلطی کا ازالہ اس طرح ضرور کر سکتے ہیں کہ وہ حلقہ ایک سو پچیس کے لیے حامد خان کی جگہ کوئی ایسا اُمیدوار لائیں جو نہ صرف ڈیفینس کے پڑھے لکھے، لبرل، ماڈرن طبقات کی نمائندگی کرسکے بلکہ وہ اس سے ملحقہ دیہات اورغریب علاقوں کی آواز بھی بن سکے۔ خان صاحب کو سیاسی میدان میں اترے کافی عرصہ بیت چکا ہے۔ اب انھیں کسی یو ٹرن کی نہیں حالات کی نزاکت سمجھنے اور دیوار کے دوسری طرف دیکھنے والی فہم کی ضرورت ہے۔

دوسری طرف میاں صاحب پاکستان کی سیاسی تاریخ میں وہ واحد قائد ہیں جو جیت بھی رہے ہوں تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ بھاری سے بھاری مینڈیٹ ملے چاہے وہ دھاندلی زدہ ہی کیوں نہ ہو۔ نوے کی دھائی کے انتخابات میں بھی یہی ہوتا رہا۔ جیتی ہوئی سیٹوں پر تیس پینتیس ہزار ووٹوں کا اضافہ کیا گیا اور کچھ ایسے نتائج سامنے آئے کہ کبھی کسی نے ان کے بھاری مینڈیٹ کو درست نہیں مانا۔ گزشتہ انتخابات میں تو موصوف نے وقت سے پہلے ہی واضع اکثریت کا مطالبہ کر دیا تھا۔ تو ان کی اس واضع برتری پر شک کیسے نہ کیا جاتا؟ سعد رفیق کا معاملہ بھی یہی تھا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ جیت جائے گا مگر وہ بھی اُسی ذہنیت کا حامل نکلا جس نے جیت کو ہار میں بے وجہ بدل دیا۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں