موجودہ حکومت کو برسرِاقتدارآئے 2 سال مکمل ہوچکےہیں اوراب یہ اپنا تیسرا بجٹ پیش کرنے جارہے ہیں۔ بجٹ آخرہوتا کیاہے کون بناتا ہے اورکس لئے بناتاہے اوراسے پیش کرنے سے آخرحاصل وصول کیا ہوتا ہے اس پرتو ہمارے ٹی وی چینلز اوران پر بیٹھے نام نہاد دانشور انتہائی ’’پرمغز اور بے مغز‘‘ قسم کی گفتگو فرمائیں گے لیکن میرا مسئلہ کچھ اور ہے اور میں اس ’’کچھ اور‘‘ پربات کروں گا۔ ایک منٹ رکئیے گا کہیں آپ مجھے کوئی دانشوریا معاشی ماہرسمجھ کراس تحریر کو پڑھنے سے خوفزدہ تونہیں ہورہے کہ میں آپ کو اعداد و شمارکے کسی گورکھ دھندے میں نہ الجھادوں۔ ہرگزنہیں میرے دوستوں میں تو خود آپ ہی کی طرح ایک عام پاکستانی شہری ہوں جس کے وہی سب مسائل ہیں جو کہ کسی بھی عام آدمی کہ ہوسکتے ہیں۔
ہاں تو جیساکہ میں کہہ رہا تھا کہ میں ایک عام آدمی ہوں اورمیرے مسائل بھی حکومت کے مسائل سے ذرا ہٹ کر عوامی قسم کے ہیں اورمجھے یہ بھی یقین ہے کہ اب تک میرے قارئین کو میری آج کی تحریراپنی تحریر لگنے لگی ہوگی اور آگے کے سفر میں وہ میرے ہم رکاب ہوں گے۔
تو وزیرِ محترم جنابِ والا اسحاق ڈارصاحب یہ تو مجھے معلوم ہے کہ آپ اس وقت بجٹ کے اعداد و شمار کو حتمی شکل دینے میں بے حد مصروف ہوں گے اورآپ کوایک لمحہ فرصت کا میسرنہیں ہوگا۔ ظاہرسی بات ہے دو روزبعد آپ نے حکومت کی کارکردگی اعدادوشمارمیں بتانی ہے اوریہ انتہائی مشکل ازجاں کام ہوگا لیکن مؤدبانہ گزارش یہ ہے چند لمحے رک کر’’میرا کچھ اور‘‘ سن لیجئے بصورت دیگرآپ کے سارے اعداد و شمار دھرے کے دھرے رہ جائیں گے اورآپ کو اوروزیراعظم نواز شریف دونوں کو اللہ کی عدالت میں انتہائی سخت حساب دینا ہوگا۔
میرا مسئلہ صرف یہ ہے کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں ماسوائےایک عام آدمی ہونے کے اوراسی آدمی ہونے کے ناطے میری تنخواہ وہی ہے جو آپ نے گذشتہ سال مقررکی تھی یعنی کہ 12 ہزار روپے۔ میرا یقین کیجئے وزیر محترم مجھے آپ کی قابلیت پرکوئی شک نہیں آپ نے یقیناً جب ایک آدمی کی تنخواہ 12 ہزار مقرر کی ہے تو آپ اس عام آدمی کے مسائل اور ضروریا ت سے ضرور واقف ہوں گے، وہ کیا ہے نہ جناب کہ میں ٹھہرا ایک عام نیم خواندہ شخص یقیناً کہیں نا کہیں اسراف کی غلطی کربیٹھتا ہوں گا جبھی میرے خرچے کسی ایک مہینے بھی ان پیسوں میں پورے نہیں ہوئے۔ ذرا آپ سنئیے اور میری رہنمائی کیجئے کہ میں نے کہاں غلطی کی ہے جو میراان پیسوں میں گزارا ہی نہیں ہوپاتا۔
لیجئے جناب! سنبھالئے کاغذ،قلم اورشروع ہوجائیے حساب بنانا۔ جیسے ہی مجھے تنخواہ ملتی ہے میں اپنے ایک کمرے کے گھر کا کرایہ اداکرتا ہوں جو کہ 3500 روپے ماہانہ ہے یقین کیجئے صاحب یہ مختصر سا مکان جنت کے کسی محل سے کم نہیں ہے کیونکہ مجھے صرف ایک مرتبہ کرایہ ادا کرنا ہوتا ہے اور اس کے بعد میں بری الذمہ بجلی گیس کے بل مالک جانے۔ یہ تو ہوا مکان پھرمیں راش والے کی دکان پرآتا ہوں جہاں سے سیدھا سیدھا 3 ہزار روپے کا راشن لینا ہوتا ہیے تو جناب ساڑھے چھ ہزار روپے تو یہ ہوگئے۔ اب دیکھیں جناب اعلیٰ تعلیم تو میرے اکلوتے بچے کا حق ہے نا اب اگر آپ کسی مشکل کی وجہ سے میرے بچے کو بحیثیت ریاست معیاری تعلیم نہیں دے سکتے تو میں بھی کیا آنکھیں بند کرلوں؟ نہیں صاحب ہر گز نہیں! ماشااللہ علاقے کے سب سے مہنگے اسکول میں جاتا ہے میرا بچہ پورے 1000 روپے فیس ہے بچے کی۔
ایک تو نا جناب میری گھر والی جو ہے بالکل ہی ناسمجھ اور ناشکری قسم کی عورت ہے سمجھتی ہی نہیں کہ آپ نے کتنی مشکل سے میرے لئے یہ 12 ہزار روپے ماہانہ کا حصہ مقرر کیا ہوگا اور اسے حاصل کرنے کے لئے میں کتنا سرگرداں ہوتا ہوں لاکھ سمجھایا کہ فضول خرچیاں نا کیاکرولیکن ہرمہینے اہل محلہ سے 4 سے 5 سو کا ادھار کرہی لیتی ہے۔ خیر جناب میں ایسا بھی کوئی گیا گزرا تو نہیں تنخواہ آتے ہی اپنی بیوی کے سارے ادھار اداکرتا ہوں میں۔ ڈار صاحب یہیں سے میری اصلی مشکل شروع ہوتی ہے یہ سب خرچہ تو تنخواہ ملنے سے گھر پہنچنے تک ہوجاتا ہے اس کے بعد میرے پاس بچتے ہیں 4 ہزار روپے یقین کیجئے صاحب مین نے بہت سوچا لیکن آج پورا سال ہونےکو آیا لیکن میری سمجھ سے باہر ہے کہ میں ان پیسوں میں روز دفترجانے کا کرایہ دوں، گھر کے روز مرہ کے خرچے جیسے دودھ انڈے سبزی وغیرہ کروں، بزرگ والد کی دوائیں خریدوں ( یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ میری ماں صرف مناسب علاج اور بروقت دوائیں نا ملنے کے سبب کم عمری میں دنیا سے گزرگئی) یا مہمان داریاں نبھاؤں الغرض کروں تاکیا کروں، آپ مہربانی کیجئیے کہ مجھے وہ نسخہ سمجھادیجئے جس میں آپ کے حساب سے ایک مختصرخاندان کے تمام خرچے 12 ہزار میں پورے ہوجائیں گے؟۔
یقین مانئے ڈارصاحب ہرمہینے کوئی نہ کوئی قیامت گزر ہی جاتی ہے کبھی بزرگ والد کی سانسوں کی ڈوراٹکنے لگتی ہے تو کبھی معصوم بیٹا بیمارہوکرضبط کا امتحان لینے لگتا ہے، رہ گئی بیوی تو وہ بیچاری بھی ماں اور ہمارے ہاں کی اکثر عورتوں کی طرح عورت ہی ہے لہذا معمولی بیماریوں کو محض چند روپے بچانے کے لئے روگ میں تبدیل کرلیتی ہے لیکن ہم صبرکا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ ہمیں ریاست پراورحکومت پربھروسہ ہے اور ہم یہ سوچتے ہیں کہ آنے والا کل آج سے بہترہوگا۔
لیکن ڈارصاحب! آپ بھی تھوڑا سوچنے کی فرصت نکالئے اورہم سے ہمارے آج میں جینےکا حق نہ چھینئے بصورت دیگراگرہمارے پاس جینے کے لئے کوئی چارہ باقی نہیں بچا توہمارے معاشرے کے ہرگلی محلے میں ایسے عناصر موجود ہیں جو کہ ہم جیسے عام آدمی کی مجبوریوں سے کھیل کرہمیں ملک دشمن سرگرمیوں کی آگ میں جھونک دیتے ہیں۔ یادرکھئیے ڈارصاحب معاشی بدمعاشی کی گود سے ہی قومی سطح کی دہشت گردی فروغ پاتی ہے جس شخص کوزندگی کی بنیادی ضروریات میسرہوں وہ کبھی بھی کوئی غیرمعاشرتی حرکت نہیں کرتا لیکن جس کے پاس جینے کے لئے کچھ باقی نہ بچے اسے عفریت بننے سے کوئی روک بھی نہیں سکتا۔