The news is by your side.

بجٹ 2015-2016: عام آدمی کی نظر سے دیکھئے

پاکستان ایک ترقی پذیر مملکت ہے اور اس کا بجٹ گذشتہ کئی سال سے خسارے کے مناظرپیش کرتا نظرآتا ہے۔ یہ مسلم لیگ ن کی اکثریتی حکومت کا تیسرا بجٹ ہے ویسے دوسرا ہی سمجھئے کہ پہلابجٹ تو حکومت سنبھالتے ہی انہوں نے جلدی جلدی میں پیش کیا تھا، گذشتہ سال حکومت کا کہنا تھا کہ ’’ابھی ہمیں آئے ہوئے ایک سال ہی ہوا ہے ہماری ٹانگیں نہ کھینچی جائیں‘‘۔

اس سال حکومت نے بہت سے اہم اقدامات کئے ہیں جن میں دھرنوں کا سیاسی طرقے سے حل، دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب اور چینی سرمایہ کاری جیسے اہم اقدامات شامل ہیں۔ ان تمام اقدامات کے عوام اورسرمایہ داروں کو حکومت سے بے پناہ امیدیں تھیں کہ بالاخر حکومت اپنے مسائل قابو پانےمیں کامیاب ہوگئی ہے تو عوام کی فلاح کے لئے بھی اقدامات کئے جائیں گے۔

بجٹ تقریر کے دوران تمام پاکستانی شہری جو تھوڑی بہت معاشی اعداد و شمار کی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں ٹی وی کی اسکرین پر نظریں جمائے بیٹھے تھے کہ وزیرِمحترم اسحاق ڈار صاحب کی زبانِ مبارک سے کوئی خوشخبری سننے کو ملے گی جس سے ان کی تکالیف میں کمی آئے گی۔

بجٹ تقریر شروع ہوئی وزیرِعالی جناب نے اعدادوشمار پیش کرنا شروع کئے درمیان میں فوج کے کردار کوسراہا اور پھران الفاظ کے ساتھ تقریرکا اختتام کیا کہ ’’ معشیت سنبھل چکی ہے اورملک ترقی کی راہ پرگامزن ہے‘‘۔

تقریرختم ہوئی اورٹی وی کے سامنے بیٹھے بہتری کی امید لگائے پاکستانیوں نے اپنے سرپیٹ لئے کہ یہ بجٹ بھی خسارے کا بجٹ رہا اور اس میں بھی عوام سے زیادہ خواص کے مسائل پرہی توجہ دی گئی ہے۔

کسی بھی ملک کے بجٹ کے بارے میں اگر جاننا ہو کہ وہ کتنا بہتربجٹ ہے تو ہمیشہ عوامی ضروریات کے شعبہ جات کی موجودہ کارکردگی اوران کی بہتری کے لئے مختص کی جانے والی رقم کے تناسب کا جائزہ لینا بے حد ضروری ہوتا ہے۔ حکومت نے دفاعی بجٹ میں تو 11 فیصد کا اضافہ کردیا جس سے فوج کو دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ لڑنے میں یقیناً مدد ملے گی اورامید ہے کہ ملک کے گلیاں اوربازار دہشت گردی سے محفوظ ہوجائیں گے۔

اصل مسئلہ ہے معاشی دہشت گردی کا جو کہ سابقہ حکومتیں قوم کے خلاف روا رکھتی رہی ہیں اورموجودہ حکومت بھی اسی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔

حالیہ بجٹ میں لگ بھگ 20 کروڑ کی آبادی کے لئے وفاقی حکومت نےصحت کے لئے 20ارب روپے مختص کئے ہیں یعنی کہ بحیثیت عام آدمی رواں سال یہ حکومت میری اورآپ کی صحت پر 100 روپے فی کس خرچ کرے گی۔ اسحاق ڈارصاحب آپ نے تو کبھی اپنے خرچ پر علاج کرایا نہیں ہوگا کہ سرکاری خزانے آپ ہی لوگوں کے لئے توہیں لیکن مجھے یہ بتائیے کہ 100 روپے میں تو اب ایک وقت کی دوائی نہیں آتی تو پھر سرکاری اسپتال سارا سال صحت کی سہولت کیسے مہیا کرے گا۔ وہی ہوگا اسپتالوں میں جو اب تک ہوتا آرہا ہے یا شائد اس سے بھی بدتر۔

پاکستان میں شرح خواندگی کچھ ایسی ہے کہ جہالت کو بھی شرم آتی ہے حکومت نے تعلیم کی مد میں 70 ارب روپے مختص کئے ہیں جوکہ گزشتہ سال سے 14 فیصد زیادہ ہیں لیکن پھروہی بات کے آبادی کے تناسب سے یہ رقم اونٹ کے منہ میں زیرہ بھی نہیں ہے اگرتناسب دیکھا جائے تو حکومت نے لگ بھگ 350 روپے فی کس سالانہ مختص کئے ہیں۔ جناب ڈار صاحب اتنے میں تو بچے کی سال بھرکی پنسل نہیں آتی قوم کوتعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لئے اب آپ کو کچھ اورسوچنا ہوگا۔

کم سے کم تنخواہ میں ایک ہزار روپے کا اضافہ: یقین کیجئے کہ ڈارصاحب یہ خبر سن کرتو مجھے تشویش لاحق ہوگئی کہ یہ اضافی رقم میں کہاں سنبھال کررکھوں گا قبلہ آپ کے بچوں کا تو ایک وقت کا ڈنرکاخرچہ 13 ہزار سے زیادہ کا ہوگا لیکن غریب کے بچے کے منہ میں آپ ایک وقت پیٹ بھرکرنوالہ دینے کے حق میں نہیں ہیں لیکن سیکرٹریز کی تنخواہوں کی مد میں 100 فیصد اضافہ؟۔ اگر آپ واقعی معاشیات کے اتنے ماہر ہیں تو میڈیا پرآئیں جیسا کہ میں نے گزشتہ تحریر میں تقاضہ کیا تھا 13 ہزار میں کرایے کے گھر میں رہنے والے چار افراد کے خاندان کا بجٹ بنا کردکھادیں کہ ہمیں بھی پتہ چلے کہ ہم کتنے نالائق ہیں اور آپ کتنے قابل


کراچی کے عوام کی سفری سہولیات کے لئے آپ نے سے صدر تک گرین لائن بسیں چلانے کے عزم کا اظہارکیا ہے جو کہ تین لاکھ افراد کو سفری سہولت مہیا کرے گی۔ تین کروڑ کی آبادی والے شہر کے لئے تین لاکھ افراد کا سفری منصوبہ وہ بھی نیا نہیں بلکہ مصطفیٰ کمال کے دورِ حکومت میں شروع کئے منصوبے کو جھاڑپوچھ کر دوبارہ پیش کیا جارہا ہے ۔۔ واہ بھئی ٹھیک ہے بحیثیت قوم ہماری یاداشت کمزور ہے لیکن اتنی بھی نہیں کہ طویل عرصے بعد شہر میں آنے اور آکر حکومتی غفلت کے باعث برباد ہوجانے والی سی این جی بس سروس کو بھول جائیں، یقیناً آپ نے پرانی بسیں نکالنی ہیں اور ان پر کپرا مار کردوبارہ سڑکوں پر لے آنا ہے۔

توانائی کا بحران اس وقت ملک میں دہشت گردی سے بھی زیادہ سنگین ہوتا جارہا ہے اگر آپ کو یاد نہ ہو تو میں یاد دلادیات ہوں کہ آپ کی جماعت کے سربراہان انتخابی مہم کے دوران دوسال میں ملک سے اندھیرے مٹانے کے اعلانات کرتے تھے لیکن اندھیرے کیا مٹتے یوں لگتا ہے کہ تیرگی مزید بڑھ گئی ہے۔ آپ نے توانائی کے لئے جتنے بھی منصوبے رکھے ہیں وہ فریکچر کا علاج سنی پلاسٹ سےکرنے جیسے ہیں، کچھ توخوفِ خدا کیجئے آپ اکثریتی جماعت ہیں مفاہمت کی سیاست نہیں کرتے قوم کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کرتے ہیں تو ہمت کیجئے اورکالا باغ ڈیم شروع کیجئے آج سنگِ بنیاد رکھیں گے تو 2022 تک انشااللہ توانائی اور پانی کا بحران ختم ہوجائے گا اور تاریخ آپ اورآپ کی حکومت کو واقعی اچھے لفظوں میں یاد رکھے گی۔

آخرمیں آپ کو تاریخ کے جھروکوں سے فرانس کے ایک بادشاہ لوئی 16 کے ایک وزیر کی مثال دیتا چلوں۔ لوئی 16 کا دور فرانس کی ترقی کا دور تھا جس کی وجہ لوئی صاحب خود نہیں بلکہ ان کا عظیم وزیرِخزانہ کولبرٹ تھا جس نے اپنے بادشاہ کے لئے بہترین معاشی پالیسیاں بنائیں اور ان پر عمل درآمد کرایا۔ آج جب طلباء کو فرانس کی تاریخ پڑھائی جاتی ہے اور لوئی 16 کا ذکرآتا ہے تو اس کا عہد کولبرٹ کےذکرکے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ آپ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے بصورت دیگر

تمہاری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں