The news is by your side.

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں

گلوکار مہدی حسن کی فنی ذندگی پر روشنی ڈالی جائے تو اُن کی تعریف و توصیف میں الفا ظ بھی قطار با قطار سے کھڑے تعظیم میں کھڑے نظر آتے ہیں وہ فن گائیکی کے ایوانوں کے پہلے شہزادے تھے پھر فن کی تا ریخ نے اُسِ باد شاہ بنا دیا ا ور پھر شہنشاں غزل کہلا ئے ۔مہدی حسن کے والد نے دوشادیاں کیں پہلی بیوی سے نپڈت گلام قادر(موسیقار)(گلوکار)تھے اورمہدی حسن تھے دوسری بیوی سے شفیع حسن ، امیر حسن اور دو بہنیں فاطمہ بی بی اور جنت بی بی تھی ان کی پیدا ئش۱۹۳۳ میں جے پور کے قریب ایک گاؤں ’’لونا ‘‘ میں ہوئی صرف ۸ سال کی عمر میں مہارجہ بڑوداکے سامنے ۳۰ فٹ کا ایک گیت گایا جس کے بول کچھ یوں تھے ’’اپنی چمک دکھلا‘‘ اور مہا راجہ نے اُنیں سونے کے کڑے اور ریشمی پگڑی انعام میں دی ۔بارہ سال کی عمر میں پا کستا ن ہجرت کی ان کا گھر سا ہیوال کی تحصیل کے گاؤ ں چک نمبر ۱۱۱۔R۷میں تھا ۱۹۴۷ سے لیکر ۱۹۵۱ تک موٹر مکینک کا کام کر تے رہے ۱۹۵۲ میں اُن کی شادی اپنی کزن شکیلہ بیگم سے ہوئی شکیلہ بیگم سے ان کے ۶ بیٹے اور ۳ بیٹیاں ہوئیں دوسری شادی اُنھوں نے لاہور کی خا تون کی ثریا بیگم سے کی جن سے ان کے ۳ بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں گلوکاری میں مہدی حسن کو ’’راگ بھیرویں‘‘ سے عشق تھا ۱۹۵۸میں فلیڈمارشل ایوب خا ن نے جب ریڈیوپاکستان میں ایک جشن کا اعلا ن کیا تو ملک کے تمام گلوکاروں نے اُس میں حصہ لیا اور اس موقع پر جب مہدی حسن نے فیض احمد فیض کی غزل ’’گلو ں میں رنگ بھرے‘‘ گائی تو محفل لوٹ لی اوریہ غزل اُن کی فنی ذندگی کا ایک سنہری باب ثابت ہوئی ان کی پہلی فلم ’’شکار‘‘تھی اس فلم کے نغمہ نگار حفیظ جا لندری تھے( جنہوں نے پا کستان کا قومی ترانہ بھی لکھا)فلم ’’شکار ‘‘ بروز جمعہ ۳۰ مارچ ۱۹۵۶ میں کراچی کے نشاط سینمامیں ریلیز ہوئی اس فلم کا یہ گیت’’میرے خیال وخواب کی دنیا لئے ہوئے‘‘ اپنی مثال آپ تھا مہدی حسن سے ہماری بہت یا د اللہ تھی اس حوالہ سے ہماری اکثر اُن سے ملاقات ہوتی رہتی تھی اور فلم انڈسٹری کے حوالے سے اُن سے نجی گفتگو بھی ہوتی تھی انکے والدکانام عظیم خان تھا اسلئے انڈسٹری میں مہدی حسن کو خا ن صاحب کے لقب سے پکاراجاتاتھا۔شمیم آرا اپنے وقت کی سپرہٹ ہیروئن تھیں آجکل لندن میں ایک اسپتال میں گزشتہ تین برس سے کوما میں ہیں اور ان کی دیکھ بھال انکے صاحبزادے کررہے ہیں انھوں نے بتایا تھا کہ میں خان صاحب کی محبت کی مقروض ہوں کہ انہوں نے اپنے دوست موسیقار قادر فریدی سے کہہ کر مجھے پہلی مرتبہ ہدایت کا ر نجم نقوی کی فلم ’’کنواری بیوہ‘‘ میں بحیثیت ہیروئن کے کاسٹ کروایاتھا ۔ اس کے بعد میری کوئی فلم بحیثیت ہیروئن کے سپر ہٹ ہوئیں تو خان صاحب کے مشورے سے میں نے اپنی ذاتی فلم ’’صاعقہ ‘‘بنانے کا علان کیا ہدایت کار کے لئے خان صاحب نے لیق اختر کا نام تجویز کیا انھوں نے اس سے پہلے کسی فلم کی ہدایت نھیں دی تھی مگرخان صاحب کے اسرار پر میں نے انہیں ہداہت کار لیا اور خان صاحب کے کہنے پر اسکی موسیقی نثار بزمی جبکہ گیت مسرور انور نے لکھے شمیم آرا نے بتایا کہ اس فلم کے تمام گیت سپرہٹ تھے مگر خان صاحب کا یہ گیت فلم کی جان تھا جسکی وجہ سے فلم سپرہٹ ہوئی ’’اک ستم اور میری جان ابھی باقی ہے ‘‘ یہ فلم 13ستمبر 1968 میں گو ڈین سمینا میں ریلزہوئی کچھ ایسے فنکار جنکو مہدی حسن کے گیتوں نے ہیرو بنا دیا جن میں ندیم ، شاہد اور غلام محی الدین قابلِ ذکر ہیں ۔ شاعر کلیم عثمانی نے موسیقار روبن گھوش کے ساتھ جب فلم ’’شرافت‘‘ کا یہ گانا تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے لہریں بھی ہوئی مستانی سی جیسے مہدی حسن نے بہت ہی خوبصورت گایا تھا۔شباب کرانوی مرحوم نے جب اپنی فلم ’’میرانام ہے محبت‘‘ میں مہدی حسن سے یہ گیت گوایا یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم اس فلم کی ریلزکے بعد غلام محی الدین بھی ہیروز کی صف میں کھڑے ہو گئے جبکہ ان کی پہلی فلم ’’شکوہ‘‘ فلاپ فلم تھی ۔

سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کی خان صاحب بہت تعریف کرتے تھے انھوں نے ایک واقعہ گورنر صاحب کے حوالے سے سنایاکہ عشرت العباد اچھا گٹا ر بجاتے ہیں اب خان صاحب نے انکے گٹار بجانے کی تعریف کی تو یقیناًگورنر صاحب اچھا گٹار بجاتے ہونگے انھوں نے بتایا کہ گورنر صاحب لوگوں کی بہت عزت کرتے ہیں مجھ سے جب سے ملے اپنے مرتبے کا خیال نہیں کیا ہمیشہ انکساری سے بات کی ۔ سابق وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی نے جب میرے وظیفے کا اعلان کیا تو اس میں عشرت العباد کا بہت تعاون تھااللہ انھیں خوش و آباد رکھے میرے کہنے پر انہوں نے سفیر بھائی (لہری) کی مالی امداد کی وہ فرشتہ صفت انسان ہیں اداکار محمد علی، کمال، مہ ناز ، گلوکارہ اقبال بانو،جمیل فخری ، ریاض الدین ساغر، قتیل شفائی ، حمید کاشمیری، مقبول صابری قوال ، حبیب ولی محمد ، بدر

منیر ، فیاض ہاشمی اور اظہار قاضی عشرت العباد خان سے والہانہ پیار کرتے تھے۔ مہدی حسن بتاتے تھے کہ کراچی کے اسٹیرن اسٹوڈیو میں درپن اور نیرسلطانہ (جو مجھے اپنی بہنوں کی طرح عزیز تھیں) نے مجھ سے کہا کہ ہم فلم ’’عظمت‘‘ کی تیاریوں میں مصروف ہیں آپ ایسا گیت گائیں جو میری اور درپن کی زندگی میں یادگار گیت ہوں یہ بلیک اینڈ وائٹ فلم تھی اور پھر وہ انمول گیت گا کر مہدی حسن نے بھارت تک دھوم مچادی اس گیت کو بھارت میں گلوکارہ لتا منگیشکرکے سامنے مہدی حسن نے گایا تو انھوں نے ہاتھ جوڑ کر کہا تھا کہ مہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتے ہیں گیت کے بول تھے ’’زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں‘‘ صرف اس گیت کی وجہ سے فلم ’’عظمت‘‘ نے اپنی لاگت پوری کرلی تھی۔ مہدی حسن بڑے ظرف کے انسان تھے شباب کرانوی مرحوم نے جب فلم ’’نیا راستہ‘‘ بنانے کا اعلان کیا توایک گیت کے لئے مہدی حسن کو بلوایا گیت کی شاعری دیکھنے کے بعد انہوں نے شباب صاحب سے کہا کہ آپ یہ گیت احمد رشدی سے گوالیں وہ عربیہ گیت کے ماہر ہیں مگر شباب صاحب نہ مانے اور پھر یہ گیت مہدی حسن نے گایا گیت کے بول تھے ’’مجھے کردیں نہ دیوانہ،تیرے اندازمستانہ‘‘ اس گیت کی وجہ سے فلم نیاراستہ ایک بڑے مالی خسارے سے بچ گئی ۔ صحت کے حوالے سے مہدی حسن نے بتایا کہ وہ اپنی صحت کا بہت خیال رکھتے ہیں اور اکثربھولو پہلوان کے اکھاڑے میں ورزش کیا کرتے تھے ۔ مہدی حسن پانچ وقت کے نمازی تھے اور اکثر اپنی گفتگوں میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرتے تھے ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ سلیم رضا (گلوکار) کو بہت پسند کرتے ہیں کہنے لگے وہ غیر مسلم ہیں مگر انھوں نے وہ کام کیا ہے جسے میں تو کیا یہ مسلمان قوم کبھی نہیں بھول سکتی ، ان کی آواز لاکھوں میں ایک ہے ان کا کلام آج بھی مسلمانوں کے دلوں پر حکمرانی کرتا ہے کیا ہم ان کی گائی ہوئی نعت بھول سکتے ہیں ’’شہائے مدینہ شہائے مدینہ یثرب کے والی سارے نبی ترے در کے سوالی ‘‘۔مہدی حسن کو ملنے والے اعزازات میں پہلا تمغہ امتیاز فیلڈ مارشل ایوب خان نے دیا، دوسرا ستارہ امتیاز ضیاالحق نے دیا تمغہ حسن کارکردگی پرویز مشرف نے دیا۔1979میں بھارت نے انہیں سہگل ایوارڈ دیا،1983میں نیپال کی حکومت کے بادشاہ بریندرا نے ان کو نیپال کا اعلیٰ ترین اعزاز 21 توپوں کی سلامی کے ساتھ دیاگیا اس کے علاوہ سینکڑوں ایوارڈز بھی ملے۔ مہدی حسن کے ملی نغموں نے تو نوجوانوں کے دلوں میں پاکستان کی محبت اُجاگر کی ان کے ملی نغمے اپنی مثال آپ تھے۔۱۔ یہ وطن تمھارا ہے تم ہو پاسپان اس کے، ۲۔ اپنی جان نظر کروں اپنی وفا پیش کروں نوجوان نسل آج بھی ان نغموں سے مستفید ہوتی ہے۔ مہدی حسن محب وطن پاکستانی تھے بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے انہیں بھارت کی شہریت کی دعوت دی مگت اس سچے مسلمان نے پاکستان کی سرزمیں کو اپنی سرزمین سمجھتے ہوئے اُسے ٹھکرا دیا مہدی حسن پاکستان کا اٖثاثہ تھے مہدی حسن وہ خوش قسمت شخص تھے جن کی جھولی میں عزت و تکریم کی تھی گورنر عشرت العباد کی کوشش سے سائٹ میں ناظم آباد سے گلبائی تک شاہراہ شہنشاہ غزل مہدی حسن مرحوم کے نام سے منسوب کی گئی جس کا باقاعدہ سرکاری نو ٹیفیکیشن بھی جاری ہوا ان کے پرستاروں میں ہر مذہب اور ہر شعبہ زندگی کے لوگ قابلِ ذکر ہیں۔ مہدی حسن نے کئی ہزار گیت اور غزلیں گائیں طلعت محمود، محمد رفیع اور مکیش کے پرستاروں سے معذرت کے ساتھ جو گیت اور غزلیں مہدی حسن نے گائی ان کا ثانی نہیں 13-06-2012کو وہ اپنے رب کی طرف لوٹ گئے بے شک ہمیں بھی اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے۔

 

شاید آپ یہ بھی پسند کریں