The news is by your side.

بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کوئی نیا جرم نہیں

آج کل قصور میں بچوں سے زیادتی اور بلیک میلنگ کے اسکینڈل کے ہرجگہ چرچے ہیں۔ کیا قصور کا واقعہ اتنا سیدھا ہے کہ اس پراوسط فہم سے بھی رائے زنی کی جا سکے؟ یا یہ قصہ اتنا پیچیدہ ہے کہ اس پرسزا دینے کے لئے انتہائی دانشور منصفین کی ضرورت پڑے؟۔

کل جب میں نے سوشل میڈیا پراس موضوع پرلکھا تھا تو اس میں صرف نوازحکومت پرسوال اٹھانے اورتوجہ مرکوز کرانے کی بات کی تھی یہ نہیں کہا تھا کہ نواز اورشہباز ہی مجرم ہیں تاہم ایک سیاسی حکومت کی موجودگی میں یہ کہنا کہ اس کو سیاسی رنگ نہ دیا جائے یہ جرم کی پردہ پوشی کی عجیب دلیل ہے۔ یعنی اگر آپ کا تعلق نوازلیگ سے ہے تو آپ یہ بات کر ہی کیوں رہے ہو؟ آپ بھی بلاتفریق مجرموں کی سزا کا مطالبہ کرنے والوں میں شامل ہوجاوٗ۔ حکوت سیاسی ہو یا فوجی سوال تو حکومت وقت سے ہی پوچھا جائے گا اور یہاں تو سیاسی حکومت کے ایک ایم پی اے کا نام بھی آرہا ہے تو سیدھا اورجائز مطالبہ بھی یہی بنتا ہے کہ ذمہ داران کو ان کی سیاسی وابستگی دیکھے بغیرسزا دی جائے۔ اس سیدھے مطالبے کو سیاسی رنگ نہ دینے کا کہہ کرآپ خود چورکی داڑھی میں تنکا ڈال رہے ہیں۔

بلا شبہ یہ جرم نیا نہیں، بہت قدیم ہے، مگر یہ جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے، اور میڈیا جیسا آج ہے پہلے کبھی ایسا نہ تھا۔ پشاور میں یہ سب تھوڑی مختلف شکل میں نہ جانے کب سے جاری ہے۔ پہلے بچوں کو جنسی زیادتی کا عادی بنایا جاتا ہے اورپھر وہ عادی مجرموں کی طرح اس گناہ کو اپنا لیتے ہیں اور جب یہی لوگ اس غیر فطری عمل اور جرم کو اپنائے ہوئے بلوغت میں داخل ہوتے ہیں تو جدید معاشروں میں سترنگی تصویرعام ہو جاتی ہے۔ یہاں بھی اگر بچوں کی جگہ بڑے ہوتے، زبردستی نہ کی گئی ہوتی اور وڈیوز مرضی سے بنوا کر اپلوڈ کی جاتیں تو بہت سے روشن خیال ان کے حقوق کے حق میں مظاہرے کررہے ہوتے۔

فرق یہ بھی ہے کہ یہ بچے کسی گھرمیں ملازم نہ تھے ورنہ جو کچھ ہمارے معاشرے میں گھریلو ملازمین اورخاص طورپر بچیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے اگراس کا ایک فیصد بھی منظرعام پرآ جائے تو تعداد شاید ہزاروں میں نکل آئے۔ باپ سے بیٹوں تک سب جنسی زیادتیوں میں شامل ہوتے ہیں اورپھر وہی سیکنڈ تھرڈ ہینڈ جوانی نئے کپڑوں میں ڈال کرکسی غریب کے حوالے کردی جاتی ہے۔ کون جانے سات پردوں میں لپٹی عزتیں کتنی شفاف ہوتی ہیں اورگھروں میں اکیلے لڑکے لڑکیاں کیا کیا کرتے ہیں؟۔

یہ سب معاشرے کی عمومی سماجی برائیاں ہیں جنھیں ایک سکینڈل نے بین السطور پہلے سے زیادہ نمایاں کردیا ہے لہذا اس کے دیرپا حل کے لیے ہمیں اس ایک واقعہ سے ہٹ کر بھی سوچنا چاہیے اوراس کے سیاسی، سماجی، معاشرتی اور معاشی پہلووں پربھی غورکی ضرورت ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام اپنی گراوٹ کی آخری حدوں سے بھی آگے نکل چکا ہے۔ مرغی کی غلاظت سے لے کرزچگی کے فضلے تک ہرشے قابلِ فروخت ہے۔ ایسے میں ہمارے لیے شاید نیا صرف یہ ہے کہ زبردستی کے بعد ان بچوں کو بلیک میل بھی کیا گیا اور ان کی وڈیوزبنا کرسوشل میڈیا پراپلوڈ کردی گئیں یا شاید بیچ دی گئیں۔ یعنی ٹیکنالوجی کا عام ہونا اورسرمایہ داری نظام کا ہمیشہ کی طرح اخلاقیات کو نظرانداز کرکے ہرشے کو برائے فروخت بنا دینا بھی جرم کے تحفظ میں شامل رہا۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں