The news is by your side.

وزیراعظم کی سیاسی زندگی کے اہم ترین لمحے

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب سے وزیر اعظم نواز شریف نے یقیناًاپنے مخالفین کو بھی تعریف پہ کسی حد تک مجبور ضرور کر دیا ہے۔ سالِ گزشتہ میاں صاحب کے والڈ روف میں ٹھہرنے اور صاحب بہادر سے ملاقات کے لیے کوششیں کرنے کے حوالے سے غیر سفارتی باڈی لینگوئج کی وجہ سے مجھ سمیت بہت سے لکھاریوں نے میاں صاحب کے دورے کو ایک ناکام دورہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی اور میں نے اس وقت بھی لکھا تھا کہ میاں صاحب کی تقریر کے دوران اسمبلی ہال کی 50فیصد کرسیاں خالی ہونا میاں صاحب کے دورے اور کی گئی تقریر کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

اسمبلی ہال کی کرسیاں اس دفعہ بھی بھری ہوئی نہیں تھیں۔ نہ ہی کوئی اہم سربراہ ء مملکت میاں نواز شریف صاحب کی تقریر کے دوران وہاں موجود تھا۔ لیکن اس کے باوجود وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان نے 15سے16 منٹ کی تقریر کے دوران مدلل اندازِ گفتگو اختیار کیا۔ کچھ من کرِکرِا ضرور ہوا کہ ہمیشہ سے یہ گلہ رہا کہ جب چین جیسی ابھرتی ہوئی طاقت اور خطہ ء عرب کے سربراہان اپنی زبان کو ذریعہ اظہار بنا سکتے ہیں تو پھر آخر ہم کیوں اردو کو اتنا کمتر سمجھتے ہیں کہ عالمی فورم پر اس کو استعمال کرنا گوارا نہیں کرتے لیکن فی الحال بات صرف تقریر کی کرتے ہیں ہال کی کرسیاں بے شک خالی تھیں لیکن ہال سے باہر اس تقریر نے ایک جاندار تاثر چھوڑا ہے۔

تقریر سے پہلے جس طرح اندازے لگائے جا رہے تھے کہ میاں صاحب شاید مسلہء کشمیر کا ذکر قدرے دھیمے انداز میں ہی کریں گے وہ تمام اندازے غلط ثابت ہوئے کیوں کہ میاں صاحب نے اپنی تقریرمیں کم و بیش 50 فیصد سے زیادہ جگہ مسئلہ کشمیرکو دی اور ساتھ ہی اقوام متحدہ کو بطورایک ادارہ یہ بھی باور کرا دیا کہ نصف صدی سے زائد کے اس متنازعہ قصے میں ناکامی صرف اقوام متحدہ کی ہے جو اپنی ہی قراردادوں پرآج تک عمل درآمد نہیں کروا سکا۔ تقریر سے پہلے ایک معروف اینکر واشگاف الفاظ میں جب یہ کہتے سنے کہ تقریر میں کچھ نیا پن نہیں ہو گا تو سوچا پھرسننے کا کیا فائدہ لیکن تقریر سننے کے بعد دل کچھ مطمئن ضرور ہوا کہ وقت ضائع نہیں ہوا۔

چند منٹوں میں میاں صاحب نے جس طرح مسلہ کشمیر کو اجاگر گیا اس کا اندازہ انڈین ڈیسک پر بیٹھے ان کے نمائندے کی بڑبڑاہٹ سے بخوبی ہو رہا تھا۔ نہ صرف مسئلہ کشمیر بلکہ بلا اشتعال سرحدی خلاف ورزیاں بھی موضوع بحث بنیں۔ امن کی دعوت دے کر میاں صاحب نے یقیناًمودی سرکار کو بیک فٹ پر دھکیل دیا ہے۔ چار نکاتی فارمولہ پیش کرکے میاں صاحب نے بال انڈیا کے کورٹ میں پھینک دی ہے۔ ایک اور حیران کن حقیقت یہ آشکار ہوئی کہ میاں صاحب نے سیاسی طور پہ اپنے شدید حریف مشرف صاحب کے 2003 کے فارمولے پر دوبارہ سے عمل درآمد کرنے کے حوالے سے بھی انڈیا کی طرف ہاتھ بڑھا دیا ہے۔ جس انداز میں میاں صاحب نے چار نکاتی فارمولہ پیش کیا ہے وہ یقیناًان کی کامیابی تصور کیا جا نا چاہیے۔ کیوں کہ یہ فارمولہ انہوں نے مضبوط موقف پیش کرنے کے بعد بتایا۔ کشمیر کے مسئلے کا سب سے اہم فریق کشمیریوں کو کہہ کر یقیناًمیاں صاحب نے حریت قیادت کے دلوں میں بھی گھر کرلیا ہے۔ کیوں کہ انڈیا کے ساتھ تعلقات اور کشمیر پر نرم موقف کے حوالے سے میاں صاحب حریت قیادت کی گڈ بکس میں نہیں تھے لیکن اس تقریر کے بعد منظر نامہ یقینی طور پر کچھ نہ کچھ تبدیل ہو گیا ہے ۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ حریت قیادت نے میاں صاحب کی تقریر کو نہایت مثبت اور خوش آئند قرار دیا ہے۔ اگر واقعی بھارت اس حقیقت کا ادراک کرلے کہ ہمسائے کے بجائے غربت خطے کی سب سے بڑی دشمن ہے تو پورا خطہ ترقی کی نئی راہوں پہ گامزن ہو جائے گا۔ نقصان صرف اور صرف اسلحہ بیچنے والے گروہوں کا ہو گا۔ جو دونوں ممالک کو آپس میں لڑا کر اپنی دوکان چمکانے میں مصروف ہیں۔

چند منٹ میں میاں صاحب نے نہ صرف پاک چین اقتصادی راہدراری پہ بات کی بلکہ مشرق وسطیٰ، داعش،پاک بھارت تعلقات، ذمہ دار ایٹمی قوت اور امن مشن میں پاکستان کی خدمات جیسے حساس موضوعات کا بھی احاطہ کیا۔ ضرب عضب کو موضوع بحث بنا کر میاں صاحب نے دنیا کی توجہ اس امر کی طرف منتقل کرنے کی بھی کامیاب کوشش کی کہ یہ آپریشن صرف پاکستان نہیں بلکہ باقی دنیا کی سلامتی کے لیے بھی نہایت اہم ہے۔ سلامتی کونسل میں اصطلاحات کے حوالے سے پاکستان کا موقف مضبوط انداز میں دنیا تک پہنچایا گیا اور بھارت کے سلامتی کونسل میں شامل ہونے کی راہ میں یقیناًاب آسانیاں نہیں رہیں۔

میاں صاحب کی پوری تقریر میں سب سے اہم بات پاکستان اور چین کے تعلقات کے علاوہ روس کا ذکر بھی تھا۔ اب یہ پالیسی شفٹ ہے یا کچھ اور لیکن یہ بات عیاں نظر آئی ہے کہ میاں صاحب نے اپنے لفظوں سے اپنی خارجہ پالیسی کی راہ متعین کرنے کی کوشش کی ہے اور شاید پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ پوری تقریر میں امریکہ کا ذکر نہیں تھا۔ اب یہ بدلتی ہوئی خارجہ پالیسی کا مظہر ہے یا کچھ اور؟ اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرئے گا لیکن یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ میاں صاحب نے پندرہ سے سولہ منٹوں میں پاکستان کا مقدمہ بہترین انداز میں لڑا ہے۔

کامیاب تقریر کے باوجود کچھ خامیاں یقیناًباقی ہیں جن کی نشاندہی ضروری ہے۔ اب شاید وقت کا تقاضا ہے کہ خارجہ کا قلمدان وزیر اعظم اپنے پاس رکھنے کے بجائے کسی قابل ساتھی کو سپرد کردیں۔ کیوں کہ دورہ امریکہ کے دوران طارق فاطمی صاحب اورسرتاج عزیز صاحب جس انداز سے ناکام مشیر ثابت ہوئے ہیں اس سے کوئی شک نہیں رہ گیا کہ کُل وقتی وزیر خارجہ اتنا ہی اہم ہے جتنا کُل وقتی وزیر خزانہ یا وزیر داخلہ۔ اس لیے اب خارجہ پالیسی کو پاکستان کا روشن چہرہ دنیا پہ واضح کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہوئے وزیر خارجہ کا تقرر نہایت ہی اہم ہے مشیر صاحبان کسی بھی طرح سے تاثر قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ نہ تو میڈیا کے نمائندوں کو باقاعدہ کسی بھی قسم کی بریفنگ دے پائے۔ نہ ہی غیر ملکی مندوبین کے ساتھ ملاقاتیں اس طرح سے ہو پائیں جس طرح سے توقعات وابستہ کی گئی تھیں۔

مُدلَل الفاظ یقیناً تبھی دنیا پہ دھاک بٹھا سکتے ہیں جب ان الفاظ کے دفاع میں ہرطرح کے سوالات کے جوابات دینے کیلئے ایک کُل وقتی وزیر خارجہ موجود ہو۔ اگرآج کوئی سرپھرا صحافی یہی سوال کر بیٹھے کہ کیا اس تقریر کے بعد پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کو نئی جہت تو نہیں دے رہا کہ چین اورروس کا تو ذکر کیا لیکن امریکہ کا ذکر گول کر دیا گیا تو ایک طالبعلم کی حیثیت سے یہ لگتا ہے کہ یقیناًدونوں مشیر صاحبان لاجواب ہوں گے کیوں کہ وزیر خارجہ کا قلمدان تو خود وزیراعظم کے پاس ہے۔

تنقید اپنی جگہ لیکن اگرکچھ اچھا کریں گے تو تنقید کرنے والے ہی توصیف کریں گے۔ شرط یہ ہے کہ بہتر کارکردگی میں تسلسل لائیں۔ اور جیسی مضبوط تقریر اقوام عالم کے سامنے کی ہے ویسے ہی بڑے دل اور اچھی سوچ کے ساتھ ملک بھی واپس آئیں اور تمام حلیفوں اورحریفوں کو ساتھ لے کر چلیں۔ اس سے نہ صرف آپ کا اپنا سیاسی قد بڑا ہوا گا بلکہ ملکی ترقی میں بھی آپ کا یہ کردار اہم کردار ادا کرئے گا۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں