دو ہزارتیرہ کے الیکشن میں میرا یہ خیال تھا کہ لاہور سے تحریک انصاف جتنے بھی ووٹ لے گی اس کا اکثریتی حصہ پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک پرمشتمل ہوگا اوراب حلقہ این اے 122 کے ضمنی انتخاب میں پیپلزپارٹی جتنے بھی ووٹ لے گی اس کا نقصان صرف تحریک انصاف کو ہوگا۔ جناب آصف زرداری کی مفاہمت کی سیاست اور پیپلزپارٹی کی ناکامی کا تجزیہ محض ان دو جملوں سے کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں ہم یہ حقیقت بار بار دوہرانے کے باوجود پیپلز پارٹی میں شامل زرداری پسند دوستوں کو سمجھانے میں ناکام رہے کہ جب کوئی بری طرح ہار کردوسرے سے تیسرے نمبر پرچلا جاتا ہے تو اس کی واپسی ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہوجاتی ہے۔ آج جو بلاول مشکلات فیس کر رہا ہے وہ انہی غلطیوں کا نتیجہ ہے۔ دوست ہماری تنقید کو جنابِ زرداری سے ذاتی مخالفت تعبیرکرکے فراموش کرتے رہے مگرایسا نہیں تھا۔ ہم ہمیشہ اسی کوششش میں رہے کہ زرداری صاحب کسی طرح اس حقیقت سے آشنا ہو جائیں کہ سیاست میں حکومت اورحزب اختلاف کے درمیان کوئی مفاہمت نہیں ہوتی۔
جمہوریت کے تسلسل کی خاطرمفاہمت کی سیاست کا مطلب حزبِ اختلاف کے رول سے دستبردارہونا نہیں ہوتا۔ مگر ہم نے دیکھا کہ جناب زررداری اوران کی مرکزی قیادت جمہوریت کے تسلسل کا بہانہ بنا کر مسلسل اپنے حزب اختلاف کے رول سے روگردانی کرتی رہی۔ جناب زرداری کی مفاہمت کی سیاست کا نتیجہ یہ نکلا پیپلز پارٹی بڑے شہروں کی سیاست میں ایک اقلیتی جماعت بن کررہ گئی۔ اس کے باوجود کہ تحریک انصاف اپنی صوبائی اورنواز لیگ کی مرکزی اورصوبائی دونوں حکومتیں کچھ بھی قابل ذکرکرنے میں ناکام رہیں، پیپلزپارٹی پنجاب کے تقریبا تمام بڑے شہری حلقوں سے آوٹ ہو چکی ہے۔ اس حقیقت سے آشنا کہ آمریتیں کبھی عوام سے پوچھ کر نہیں آتیں، جمہوریت کا تسلسل مصنوعی حد تک خطرے میں پیش کرکے پیپلز پارٹی کی شناخت اورحیثیت کی قربانی دے دی گئی۔
تاہم نواز لیگ اور تحریک انصاف کا میچ ساٹھ سے چالیس فیصد فتح کے امکانات کے ساتھ ابھی باقی ہے۔ میری رائے میں چالیس فیصد امکانات تحریک انصاف اورساٹھ فیصد مسلم لیگ نواز کی فتح کے ہیں۔ لاہور کے اکثریتی حلقوں کے حوالے سے یہ وہی روایتی ریشو ہے جو کبھی پیپلز پارٹی اورنواز لیگ کے درمیان ہوا کرتی تھی۔ تاہم تحریک انصاف کی فتح کے چالیس فیصد امکانات میں بعض دیگرعوامل اہم کردارادا کرکے درمیان کے بیس فیصد کو کافی حد تک کم یا ختم کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر پیپلز پارٹی کو کبھی ان حلقوں سے جماعت اسلامی کا ووٹ نہیں ملا تھا۔ اب جبکہ جماعت تحریک انصاف کی حمایت کا اعلان کر چکی ہے تو ممکن ہے کہ پانچ سے سات فیصد لیڈ اس سے کور ہو جائے۔ ذاتی شہرت کے حوالے سے بلا شبہ ایازصادق کو فوقیت حاصل ہے کہ وہ اپنے حلقہ انتخاب میں کم از کم علیم خان سے زیادہ نیک نام سمجھے جاتے ہیں۔ تاہم علیم خان ایک تجربہ کار کھلاڑی ہیں۔ وہ لوگوں میں گھلنا ملنا اور روایتی الیکشن لڑنا جانتے ہیں۔ اور سب سے اہم نقطہ جس کی بنا پر شاید انھیں تحریک انصاف کے ٹکٹ سے نوازا گیا ہے وہ پیسے کی سیاست ہے۔ یہ وہ فیصلہ کن نقطہ ہے جس کی بنیاد پر حلقہ 122 کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے۔ اس میں تحریک انصاف کے لیے نقصان دہ پہلو یہ ہے کہ علیم خان کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ پارٹی کے روایتی سیاست ختم کرنے کے بلند و بانگ دعوں کے برعکس ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا اگر عمران خان اس غیر اہم سیٹ کے لیے جو انھیں وزیراعظم تو کیا قائد حزب اختلاف بھی نہیں بنوا سکتی وہ علیم خان کی جگہ تحریک انصاف کے کسی مڈل کلاس پڑھے لکھے نوجوان کو ٹکٹ دے کر آئندہ عام انتخابات کے لیے اپنی ساکھ بحال رکھتے۔ اس میں جیت کے امکانات بھی ہوتے اور ہارنے کی صورت میں اصولی سیاست کے جھوٹے سچے بھرم کے ساتھ فیس سیونگ بھی بہتر ہوجاتی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ خود تحریک انصاف کے بعض لوگ علیم خان اور ایاز صادق کی شخصیات کا موازنہ کرنے پر مجبور ہیں۔ خان صاحب نے شاید یہ سوچا ہوگا کہ علیم خان تجربہ کار ہونے کے ساتھ ساتھ غریب غربا کے ووٹ خریدنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں تو وہ نواز لیگ کی پیسے اور ووٹ خریدنے کی روایتی سیاست کا بہتر مقابلہ کر پائیں گے۔ اس کے علاوہ انھیں شاید یہ گمان بھی ہوگا کہ تحریک انصاف کا اپنا ووٹ تو کہیں نہیں جائے گا لیکن جو ووٹ ہمیشہ سے بِکتا چلا آیا ہے علیم خان اس کا بڑا حصہ خریدنے میں کامیاب رہیں گے۔
لاہور کی حد تک غیر روایتی بات محض اتنی سی ہے کہ پہلے ایک پارٹی پیسے کی سیاست کرتی تھی اس بار دونوں جماعتیں پیسے کا استعمال کر رہی ہیں۔ لہذا اس ضمنی انتخاب کو دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات کے حوالے سے دیکھنا بھی شاید درست نہ ہوگا۔ بلا شبہ ایاز صادق یا علیم خان کی فتح کا فیصلہ ان کے حلقہ کے عوام نے کرنا ہے۔ مگر اصل مقابلے والی دونوں جماعتوں میں ایسا کچھ نہیں کہ جس کی بنیاد پر حلقے کی عوام کسی بہتر اور تسلی بخش اخلاقی نتیجے پر پہنچ سکے۔ ایک طرف ایاز صادق کی زاتی شہرت علیم خان کی نسبت تھوڑی بہتر ہے تو دوسری طرف نواز لیگ کے ساتھ ماڈل ٹاون سانحہ سے لے کر نندی پور کرپشن سکینڈل اور لوڈ شیڈنگ نوے روز میں ختم کرنے کے جھوٹے دعوے جُڑے ہوئے ہیں۔ اسی طرح سے ایک طرف غیر رواتی سیاست اور تبدیلی کے دعوے تو دوسری طرف پڑھی لکھی مڈل کلاس یوتھ پر علیم خان جیسے روایتی سیاستدان کو ترجیح دینا۔ یعنی علیم خان اگر جیت بھی جائے تو کونسی تبدیلی رجسٹر ہو گی؟ اور اگر ایاز صادق ممکنہ طور پر جیت جائے تو کونسا ماڈل ٹاون کے بے گناہ شہدا کو انصاف مل جائے گا، کونسی شرافت کی جیت ہو جائے گی؟ تحریک انصاف کی سیاست کے حوالے سے محض اس بات کی اہمیت ہوگی کہ وہ اپنے غیر روایتی سیاست والے ووٹر کو کس حد تک اپنے ساتھ رکھ سکتی ہے۔ اگر تو وہ ایسا کرنے میں کامیاب رہتی ہے تو ان کی جیت کے امکانات دیکھے جا سکتے ہیں۔ تاہم اگر تحریک انصاف گزشتہ نتائج کی نسبت زیادہ مارجن سے یہ سیٹ ہارتی ہے تو اس کا مطلب یہی سمجھا جائے گا کہ خود اس کے اپنے ووٹر نے اسے مُسترد کر دیا ہے۔ نواز لیگ اگر یہ سیٹ ہار بھی جائے تو یہ کوئی بڑی غیر روایتی بات نہ ہوگی کہ تاریخی طور پر پاکستانی سیاست میں سپیکر قومی اسمبلی اور وزیر خارجہ اکثر ری الیکشن ہار جایا کرتے ہیں۔ کُل ملا کر بیرسٹر عامر حسن، ایاز صادق اور علیم خان سے زیادہ غیر روایتی اور بہتر امیدوار ہیں۔ مگر پیپلز پارٹی کی لاہور میں حیثیت وہی ہو چکی ہے جو ملک کے بیشتر حصوں میں جماعت اسلامی کی ہوتی ہے۔