The news is by your side.

شیرجنگل میں اکیلا ہی دھاڑ رہا ہے

پتا نہیں پاکستان میں وہ دن کب آئے گا جب سیاسی قیادتیں اپنی غلطیاں اورشکست کھلے دل سے قبول کرلیں گی؟ آخری وقت تک میڈیا اورعمران خان این اے ایک سو بائیس کے انتخاب کو عمران خان اورنوازکا مقابلہ بنا کرپیش کرتے رہے جبکہ یہ مقابلہ ان دونوں کے درمیان کبھی تھا ہی نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہار علیم خان کی بُری شہرت اورجیت ایازصادق کی نسبتا بہترشہرت کی ہوئی۔ اگر یہ انتخاب دو جماعتوں یا عمران نواز کے درمیان تھا تو تحریک انصاف اسی حلقے میں صوبائی سیٹ کیسے جیت گئی؟ جبکہ عمران خان کا موقف اب بھی یہی ہے کہ علیم خان نے بہت محنت کی، بڑا اچھا الیکشن لڑا۔ کوئی شک نہیں کہ اس نے بڑا اچھا الیکشن لڑا اور کروڑوں روپیہ خرچ کیا۔ حلقے میں یہ بات بھی سننے کو ملی کہ دس ووٹوں کے بدلے ایک مشہور برانڈ کی ایک سو پچیس سی سی موٹر سائیکل دینے کا وعدہ بھی کیا گیا درحقیقت یہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین ضمنی انتخاب تھا۔

حقیقت یہ بھی ہے کہ میاں صاحب کی ٹیم علیم خان کی خراب شہرت کو نمایاں کرنے میں کامیاب رہی اور عمران خان اور تحریک انصاف اسے حلقے کے عوام کے سامنے نیک نام ثابت میں نام رہے۔ دوسری طرف یہ سوال بھی اہم ہے کہ بیرسٹر عامر حسن جو ہر لحاظ سے ایاز صادق اور علیم خان دونوں سے بہتر تھے انھیں حلقے کی عوام کی طرف سے ان کی نیک نامی کا کوئی صلہ کیوں نہیں ملا؟ لوگ کہتے ہیں کہ انھیں ان کی مرکزی قیادت اور جماعت کی حرکتوں کی سزا ملی۔ یعنی یہ کیسا بیانیہ ہے کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی؟ اور نواز شہباز کونسے دودھ کے دھلے تھے جو ایاز صادق کو علیم خان سے بہتر ہونے کا صلہ مل گیا؟ حلقے کی عوام اپنے چار بٹن کھول کر اپنا گریبان دیکھے کہ اندر کہیں ضمیر نام کی کوئی شے موجود ہے یا نہیں۔ باقی زرداری اور نواز نے بھی اپنے ہاتھ سے کونسی کرپشن نہیں کی ہے؟ اگر ان پر بھی الزام لگے ہیں تو ان کے حواریوں کی وجہ سے ہی لگتے رہے ہیں تو اگر لوگوں نے علیم خان کو ہی اتنے ووٹ دے کر ہروانا تھا تو یہی ووٹ وہ عامر حسن کے دے کر سیاسی قیادتوں کو یہ ثابت کرتے کہ ہم تمھاری اندھی تلقید نہیں کریں گے کہ تم جس کو چاہے ہم سے ووٹ دلوالو، اگر لاہوریوں نے ایسا کچھ کیا ہوتا تو یقینا یہ ان کا بڑا پن یا قومی کردار مانا جاتا مگر یہ جو کانٹے دار مقابلہ ہوا ہے اس میں لاہوریوں نے خود پاکستانی سیاست میں سرمائے کے کانٹے بونے کے سوا کوئی کردار ادا نہیں کیا۔

ادھر پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت نے بھی بے حسی اورخود غرضی کی انتہا کر رکھی ہے یعنی اگر آپ باپ بیٹوں کو سکیورٹی کا اتنا ہی خطرہ ہے تو آپ پیپلز پارٹی پنجاب کی جان چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ اعلان کردو کہ تمھارا پیپلزپارٹی پنجاب سے کوئی تعلق نہیں یا یوں ہی کہہ دو کہ ہم نے پیپلز پارٹی پنجاب کو مسلم لیگ نواز میں ضم کر دیا ہے۔ کم از کم شہیدوں سے محبت کرنے والے بچے کھُچے پیپلز پارٹی پنجاب کے لوگ کڑھنا تو چھوڑ دیں گے۔ یعنی آصف زرداری اپنی نا اہلیوں اور غلط فیصلوں کی وجہ سے تقریبا تقریبا پیپلز پارٹی پنجاب کو دفن ہی کرچکے ہیں مگرمجال ہے کہ کبھی انھیں بھی اپنی کسی بھی غلطی کا احساس ہوا ہو۔ وٹو کو پنجاب کا صدر بنانے پر پیپلز پارٹی پنجاب کا شاید کوئی ایک بھی کارکن خوش نہ ہوگا، ان کی موجودگی میں کارکنان کی اکثریت وٹو نا منظور اور وٹو مردہ باد کے نعر لگاتی رہی، پیپلز پارٹی کو پنجاب میں پے درپے عبرتناک شکست ہوتی رہی، ہرالیکشن میں پیپلز پارٹی کے ووٹ کم سے کم تر ہوتے رہے، مگر کمال آمرانہ ذہنیت پائی ہے موصوف نے کہ وہ ٹس سے مس نہ ہوئے اورڈھٹائی ایسی کہ اپنے تمام آمرانہ فیصلوں کے باوجود موصوف خود کو جمہوریت پسند کہتے ہیں۔

سیدھی طرح کیوں نہیں کہتے کہ آپ نے سندھ کا سیاسی تخت محفوظ رکھنے کے لیے پنجاب بیچ دیا ہے۔ بہرحال قیادت کی منافقانہ، آمرانہ مفاہمت کی سیاست کو اس نتیجے کے بعد اپنی اوقات نظر آ گئی ہوگی کہ پیپلز پارٹی کا کم و بیش ننانوے فیصد سابقہ ووٹ تحریک انصاف کی طرف چلا گیا ہے۔

ہمارے اکثر غیر پنجابی مسلم لیگ نواز مخالف دوست نواز شریف کو گدھا سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق انھیں کوئی سیاسی شعور نہیں ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ آج میاں صاحبان سے زیادہ بہتر پاکستانی سیاست کو کوئی نہیں سمجھتا۔ انھوں نے تو زرداری کے کیے پاک چائنہ معاہدوں کا کریڈٹ بھی اپنے کھاتے ڈال لیا اورایاز صادق کی جیت کو بھی مکمل طور پر اپنی فتح ثابت کر دیا۔ عمران خان کے مداح کہتے ہیں کہ وہ انھیں اس لیے پسند کرتے ہیں کہ وہ بولڈ فیصلے کرتے ہیں یعنی اگر وہ جرات والے فیصلے کرناجانتے تو وہ اپنی سیٹ سے استعفی دے کر علیم خان کی جگہ خود ایاز صادق کے مقابلے میں الیکشن کیوں نہ لڑتے؟ مگر دل میں خوف سمایا تھا کہ اگر ہار گیا تو کیا ہوگا۔ مگر خان صاحب یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ “قسمت دلیر لوگوں کی مدد کرتی ہے”۔

آجکل میڈیا پر ایک اور غلط فہمی پھیلائی جا رہی ہے کہ حکومت کو ضمنی انتخابات میں کوئی برتری حاصل ہوتی ہے۔ اگر حکومت کو برتری حاصلہ ہوتی ہے تو وہ اسی حلقے میں صوبائی کی سیٹ کیسے ہار گئی؟ کسی حکومت کو ضمنی انتخابات میں جتنی برتری حاصل ہوتی ہے اتنا ہی اس کے کمزور پہلو بھی ہوتے ہیں۔ بے شمار مختصر مدت کے وعدوں کے باوجود تین سال میں لوڈ شیڈنگ میں ایک منٹ کی کمی نہیں ہوئی۔ اسی فیصد سی این جی سٹیشن پنجاب میں بند ہوگئے، منہاج القرآن کے لوگوں کا دن دیہاڑے اسی شہر میں پنجاب پولیس کے ہاتھوں قتل ہوا۔ لاکھوں لوگ بے روزگار ہوئے۔ نندی پور پاور پراجیکٹ پر پہاڑ جیسے کرپشن چارجز ابھی کل پرسوں ہی لگے، مگر نواز لیگ الیکشن پھر بھی جیت گئی۔ کیوں جیتی؟ کیا یہ سب الزامات علیم خان پر لگے قبضہ مافیا کے الزامات سے چھوٹے تھے؟ ہرگز نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ انھوں نے عدلیہ، انتظامیہ اور الیکشن کمیشن کو بہتر طریقے سے ڈیل کیا، انھوں نے میڈیا کو بہتر طریقے سے استعمال کیا، میڈیا پر اپنی مہم بہتر چلائی، غلط ہونے کے باوجود انھوں نے عوام کے سامنے اپنا مقدمہ درست ایسے پیش کیا کہ وہ جابر کی بجائے مظلوم نظر آئے۔ اور تحریک انصاف کے لوگ محض اپنی چرب زبانی کی وجہ سے ظالم نظر آئے، زبان اور لہجے کا فرق تھا، ان کا اُمیدوار بہتر تھا۔ مگر تحریک انصاف اب بھی سوشل میڈیا پر ایسے پوسٹرز شئیر کر رہی ہے کہ جن میں لکھا ہے کہ “کل ملا کر لاہور کے ضمنی انتخاب میں نواز لیگ نے “ایک لاکھ دو ہزار نو سو اٹھائیس” ووٹ حاصل کیے اور تحریک انصاف نے “ایک لاکھ چار ہزار اکانوے” ووٹ حاصل کیے۔ یعنی آپ لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ لاہوریوں نے کس کو زیادہ ووٹ دیے۔ مگر آپ عقل کے اندھوں کی اندھی انا سے یہ اعتراف اب بھی نہیں ہو پارہا کہ آپ نے غلط اُمیدوار کا چناو کیا۔ اس وقت پاکستان کا سیاسی منظر نامہ یہ ہے کہ کوئی میدان خود شیر کے حوالے کر کے باہر بھاگ گیا اور کوئی سیاسی شعور سے عاری ہے۔ ایسے میں شیر جنگل میں اکیلا ہی دھاڑتا پھر رہا ہے۔ یعنی اپنے مخالفین کی نا اہلیوں کے سبب میاں صاحب نے اپنا مطلق العنان حکمران بننے کا سپنا بھی کافی حد تک پورا کر لیا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں